باب: کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4881.
حضرت صفوا ن بن امیہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر تہہ کر کے اپنے سر کے نیچے رکھ لی اور سو گئے ۔ ایک چور آیا اور اس نے وہ چادر ان کے سر کے نیچے سے کھسکا لی ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے اور کہا: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”تو نے اس کی چادر چرائی ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے (دو آدمیوں کو) حکم دیا: ”اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔“ صفوان نے کہا: میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ آپ میری چادر کی بنا پر اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے پہلے کیوں (معاف) نہ کیا۔“ اشعث بن سوار نے اس کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1) عکرمہ سے یہ روایت بیان کرنے والے دو راوی ہیں : ایک عبدالملک بن ابو بشیر اور دوسرے اشعث بن سوار۔ عبدالملک نے جب یہ روایت بیان کی تو کہا: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ۔ جب یہی روایت اشعث نے بیان کی تو کہا: عن عکرمۃ عن ابن عباس، یعنی اشعث نے اسے صفوان بن امیہ کے بجائے ابن عباس کی مسند بنایا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اشعث کی مخالفت، عبدالملک کی روایت کے لیے مضر نہیں کیونکہ وہ ثقہ راوی ہے جبکہ اشعث ضعیف ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بذات خود اس کی صراحت اگلی یعنی اشعث کی بیان کردہ روایت میں کردی ہے ۔ واللہ أعلم (2) باب کا مقصد یہ ہے کہ چور محفوظ چیز اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا غیر محفوظ چیز اٹھانے سے وہ چور تو بنے گا لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ بطور تعزیر کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے ۔ محفوظ سے مراد مثلا: یا تو مالک کے پاس ہو اور اس نے وہ چیز اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہو خواہ وہ سویا ہو یا جاگتا ہو یا وہ چیز بند جگہ میں ہو، مثلا: کمرے کا دروازہ بند ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز گھر سے باہر پڑی ہو اور مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ یا ایسے مقام پر ہو جو سب کے لیے کھلا ہے مثلا: مسجد، دفتر، سکول وغیرہ اور دروازہ بھی کھلا ہو، مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے بھی غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ مذکورہ واقعے میں حضرت صفوان نے چادر تہہ کرکے سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ محفوظ تھی۔ اس نے چرا کر اپنے آپ کو ہاتھ کاٹنے کا سزاوار قرار دے لیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4895
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4896
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4885
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت صفوا ن بن امیہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر تہہ کر کے اپنے سر کے نیچے رکھ لی اور سو گئے ۔ ایک چور آیا اور اس نے وہ چادر ان کے سر کے نیچے سے کھسکا لی ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے اور کہا: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”تو نے اس کی چادر چرائی ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے (دو آدمیوں کو) حکم دیا: ”اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔“ صفوان نے کہا: میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ آپ میری چادر کی بنا پر اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے پہلے کیوں (معاف) نہ کیا۔“ اشعث بن سوار نے اس کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عکرمہ سے یہ روایت بیان کرنے والے دو راوی ہیں : ایک عبدالملک بن ابو بشیر اور دوسرے اشعث بن سوار۔ عبدالملک نے جب یہ روایت بیان کی تو کہا: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ۔ جب یہی روایت اشعث نے بیان کی تو کہا: عن عکرمۃ عن ابن عباس، یعنی اشعث نے اسے صفوان بن امیہ کے بجائے ابن عباس کی مسند بنایا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اشعث کی مخالفت، عبدالملک کی روایت کے لیے مضر نہیں کیونکہ وہ ثقہ راوی ہے جبکہ اشعث ضعیف ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بذات خود اس کی صراحت اگلی یعنی اشعث کی بیان کردہ روایت میں کردی ہے ۔ واللہ أعلم (2) باب کا مقصد یہ ہے کہ چور محفوظ چیز اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا غیر محفوظ چیز اٹھانے سے وہ چور تو بنے گا لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ بطور تعزیر کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے ۔ محفوظ سے مراد مثلا: یا تو مالک کے پاس ہو اور اس نے وہ چیز اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہو خواہ وہ سویا ہو یا جاگتا ہو یا وہ چیز بند جگہ میں ہو، مثلا: کمرے کا دروازہ بند ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز گھر سے باہر پڑی ہو اور مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ یا ایسے مقام پر ہو جو سب کے لیے کھلا ہے مثلا: مسجد، دفتر، سکول وغیرہ اور دروازہ بھی کھلا ہو، مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے بھی غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ مذکورہ واقعے میں حضرت صفوان نے چادر تہہ کرکے سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ محفوظ تھی۔ اس نے چرا کر اپنے آپ کو ہاتھ کاٹنے کا سزاوار قرار دے لیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
صفوان بن امیہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوان ؓ نے کہا: میرا مقصد یہ نہ تھا کہ میری چادر کے سلسلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”یہ کام پہلے ہی کیوں نہ کر لیا۔“ اشعث نے عبدالملک کے برخلاف (ابن عباس ؓ کی حدیث سے) اس کو روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Safwan bin Umayyah that: he circumambulated theKa'bah and prayed, then he rolled up a Rid' of his and placed it beneath his head, and slept. A thief came and slid it out from beneath his head and took it. He brought him to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: "This man stole my Rida. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to him: Did you steal this man's Rida?" He said: "Yes." He said: "Take him away and cut his hand off." Safwan said: "I* did not want to have his hand cut off for my Rida'." He said: "Why (did you not say that) before now?