باب: کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4885.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا ( حضرت عبداللہ بن عمروؓ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”(ملزموں کو) میرے پاس پیش کرنے سے پہلے حدود معاف کردیا کرو۔ میرے پاس کوئی حد والا مقدمہ آیا تو حد لازماً لگے گی۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث صریح اور واضح دلیل ہے کہ حاکم وقت اور عدالت کے سامنے پیش ہونے اور ملزم کو پیش کرنے سے پہلے باہم حدود میں معاف کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ بالخصوص اگر جرم کرنے والا کوئی ایسا عزت دار اور معاشرے کا معزز فرد ہو جو نہ تو عادی مجرم ہو اور نہ اپنے کیے پر فخر کا اظہار کرے بلکہ اپنی غلطی پر نادم اور شرمندہ ہو تو اسے معاف کردینا ہی بہتر اور افضل ہے۔ (2) عینی شاہدین یعنی موقع کے گواہوں کے لیے یہ قطعا ضروری نہیں کہ وہ ضرور عدالت میں جا کر جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے اس کی بابت گواہی دیں بلکہ ایک مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی مستحب اور شرعا پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں۔ ہاں اگر معاملہ عدالت میں یا حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر حق سچ کی گواہی دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں حق کی گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے۔ (3) ”حدود معاف کرو“ مثلا: چور کو عدالت میں پیش کیے بغیر چھوڑ دو یا زانی کے خلاف گواہ عدالت میں نہ جائیں یا شرابی کا کیس عدالت میں نہ لے جایا جائے۔ ان صورتوں میں عدالت زبردستی کیس اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی۔ لیکن جو کیس عدالت میں آگیا ملزم نے اعتراف کرلیا یا گواہوں نے گواہی دے دی یعنی جرم ثابت ہو گیا تو پھر عدالت کےلیے حد قائم کرنا لازم ہوگا۔ وہ معاف نہیں کرسکتی۔ عدالت میں جرم کے ثبوت کے بعد متعلقہ اشخاص بھی معافی نہیں دے سکتے۔ البتہ قصاص کا مسئلہ اس ضابطے سے مستثنیٰ ہے ۔ قتل کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے گواہ بھگت جائیں یا ملزم اعتراف کر لے حتیٰ کہ عدالت سزائے موت بھی سنا دے تب بھی مقتول کے ورثاء معاف کرسکتے ہیں حتیٰ کہ پھانسی کا پھندہ قاتل کے گلے میں پڑا ہو تب بھی اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عدالت کسی بھی مرحلے پر یا حاکم وقت کسی بھی اپیل پر قاتل کو معاف نہیں کرسکتا۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 182 :
أخرجه أحمد ( 1 / 438 ) و الحاكم ( 4 / 382 - 383 ) و البيهقي ( 8 / 331 ) من
طريق يحيى الجابر سمعت أبا ماجدة يقول : " كنت قاعدا مع عبد الله بن مسعود
رضي الله عنه ، فقال : إني لأذكر أول رجل قطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم ،
أتى بسارق فأمر بقطعه ، فكأنما أسف وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقالوا
: يا رسول الله كأنك كرهت قطعه ؟ قال : و ما يمنعني ؟ ! لا تكونوا ... الخ
و قال الحاكم : " صحيح الإسناد " . و سكت عنه الذهبي و ما يحسن ذلك منه ، فإذا
أورد أبا ماجدة هذا في " الميزان " و قال : " لا يعرف ، و قال النسائي : منكر
الحديث ، و قال البخاري : ضعيف " . لكن الحديث عندي حسن ، فإن جله قد ثبت مفرقا
في أحاديث ، فقوله : " لا تكونوا أعوانا للشيطان على أخيكم " ، أخرجه البخاري
عن أبي هريرة . انظر " المشكاة " ( 2621 ) . و قوله : " إنه لا ينبغي ... " ،
يشهد له حديث ابن عمرو " تعافوا الحدود بينكم ... " و هو مخرج في " المشكاة "
( 3568 ) . و حديث العفو ، و يشهد له حديث عائشة " قولي اللهم إنك عفو تحب
العفو ... " . و هو في المشكاة ( 2091 ) . و ذكر له السيوطي شاهدا آخر من رواية
ابن عدي عن عبد الله بن جعفر .
المشكاة ( 3568 / التحقيق الثاني )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4899
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4900
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4889
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا ( حضرت عبداللہ بن عمروؓ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”(ملزموں کو) میرے پاس پیش کرنے سے پہلے حدود معاف کردیا کرو۔ میرے پاس کوئی حد والا مقدمہ آیا تو حد لازماً لگے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث صریح اور واضح دلیل ہے کہ حاکم وقت اور عدالت کے سامنے پیش ہونے اور ملزم کو پیش کرنے سے پہلے باہم حدود میں معاف کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ بالخصوص اگر جرم کرنے والا کوئی ایسا عزت دار اور معاشرے کا معزز فرد ہو جو نہ تو عادی مجرم ہو اور نہ اپنے کیے پر فخر کا اظہار کرے بلکہ اپنی غلطی پر نادم اور شرمندہ ہو تو اسے معاف کردینا ہی بہتر اور افضل ہے۔ (2) عینی شاہدین یعنی موقع کے گواہوں کے لیے یہ قطعا ضروری نہیں کہ وہ ضرور عدالت میں جا کر جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے اس کی بابت گواہی دیں بلکہ ایک مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی مستحب اور شرعا پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں۔ ہاں اگر معاملہ عدالت میں یا حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر حق سچ کی گواہی دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں حق کی گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے۔ (3) ”حدود معاف کرو“ مثلا: چور کو عدالت میں پیش کیے بغیر چھوڑ دو یا زانی کے خلاف گواہ عدالت میں نہ جائیں یا شرابی کا کیس عدالت میں نہ لے جایا جائے۔ ان صورتوں میں عدالت زبردستی کیس اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی۔ لیکن جو کیس عدالت میں آگیا ملزم نے اعتراف کرلیا یا گواہوں نے گواہی دے دی یعنی جرم ثابت ہو گیا تو پھر عدالت کےلیے حد قائم کرنا لازم ہوگا۔ وہ معاف نہیں کرسکتی۔ عدالت میں جرم کے ثبوت کے بعد متعلقہ اشخاص بھی معافی نہیں دے سکتے۔ البتہ قصاص کا مسئلہ اس ضابطے سے مستثنیٰ ہے ۔ قتل کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے گواہ بھگت جائیں یا ملزم اعتراف کر لے حتیٰ کہ عدالت سزائے موت بھی سنا دے تب بھی مقتول کے ورثاء معاف کرسکتے ہیں حتیٰ کہ پھانسی کا پھندہ قاتل کے گلے میں پڑا ہو تب بھی اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عدالت کسی بھی مرحلے پر یا حاکم وقت کسی بھی اپیل پر قاتل کو معاف نہیں کرسکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”حدود کو میرے پاس آنے سے پہلے معاف کر دیا کرو، کیونکہ جس حد کا مقدمہ میرے پاس آیا، اس میں حد لازم ہو گئی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated form 'Amr bin Shu'ainb, from his father, from his grandfather, that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Pardon matters that may deserve a Hadd punishment before you bring it to my attention, for whatever is brought to my attention, the Hadd punishment becomes binding." (Saif)