باب: مخزومی چور عورت والی زہری کی روایت میں لفظی اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Mentioning the Different Wordings Reported by Az-Zuhri about the Makhzumi Woman who Stole)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4899.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی، کی وجہ سے قریش بڑے فکر مند ہوئے۔ وہ کہنے لگے: اس کی سفارش رسول اللہ ﷺ سے کون کرے گا؟ پھر (خود ہی) کہنے لگے: اس کی جرات رسول اللہ ﷺ کے محبوب اسامہ بن زید ؓ کے سوا کون کرسکتا ہے! حضرت اسامہ نے آپ سے اس کی سفارش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں اسے ایک حد (کو نافذ نہ کرنے) کی بابت سفارش کررہا ہے؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگوں سے پہلے لوگ اسی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بلند مرتبہ شخص چوری کرلیتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرلیتا تو اس کو حد لگا دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر (بالفرض) محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4913
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4914
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4903
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی، کی وجہ سے قریش بڑے فکر مند ہوئے۔ وہ کہنے لگے: اس کی سفارش رسول اللہ ﷺ سے کون کرے گا؟ پھر (خود ہی) کہنے لگے: اس کی جرات رسول اللہ ﷺ کے محبوب اسامہ بن زید ؓ کے سوا کون کرسکتا ہے! حضرت اسامہ نے آپ سے اس کی سفارش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں اسے ایک حد (کو نافذ نہ کرنے) کی بابت سفارش کررہا ہے؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگوں سے پہلے لوگ اسی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بلند مرتبہ شخص چوری کرلیتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرلیتا تو اس کو حد لگا دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر (بالفرض) محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ قریش کو اس مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا جس نے چوری کی تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کون بات چیت کرے گا؟ لوگوں نے کہا: آپ سے بات چیت کی جرات آپ کے محبوب اسامہ کے سوا کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ ؓ نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں سفارش کرتے ہو؟“ پھر آپ کھڑے ہوئے، خطبہ دیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے کے لوگ صرف اس لیے ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کا معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان کا کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے، اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that Quraish were worried about the Mkahzumi woman who had stolen. They said; Who will speak to the Messenger of Allah (ﷺ) concerning her?" They said: "Who would dare to do that except Usamah bin Zaid, the beloved of the Messenger of Allah (ﷺ)?" so Usamah spoke to him and the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Are you interceding concerning one of the Hadd punishments decreed by Allah?" Then he stood up and addressed (the people) and said: "Those who came before you were destroyed because, whenever a noble person among them stole, they would let him go. But if a person who was weak stole, they would carry out the punishment on him. By Allah, if Fatimah the daughter of Muhammad were to steal, I would cut off her hand.