باب: مخزومی چور عورت والی زہری کی روایت میں لفظی اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Mentioning the Different Wordings Reported by Az-Zuhri about the Makhzumi Woman who Stole)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4900.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: قریش کے ایک قبیلے بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی۔ اسے پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس کے رشتے دار کہنے لگے کہ کون اس کی سفارش کرسکتا ہے؟ کچھ لوگ کہنے لگے: حضرت اسامہؓ یہ کام کرسکتے ہیں۔ اسامہ آپ کے پاس آئے اور اس عورت کی سفارش کی۔ آپ نے انہیں ڈانٹا اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا حال یہ تھا کہ جب ان کا کوئی بلند مرتبہ شخص چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے۔ (کچھ نہیں کہتے تھے۔) اور جب کوئی کم مرتبہ شخص چوری کرلیتا تھا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ بنت محمد چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4914
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4915
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4904
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: قریش کے ایک قبیلے بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی۔ اسے پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس کے رشتے دار کہنے لگے کہ کون اس کی سفارش کرسکتا ہے؟ کچھ لوگ کہنے لگے: حضرت اسامہؓ یہ کام کرسکتے ہیں۔ اسامہ آپ کے پاس آئے اور اس عورت کی سفارش کی۔ آپ نے انہیں ڈانٹا اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا حال یہ تھا کہ جب ان کا کوئی بلند مرتبہ شخص چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے۔ (کچھ نہیں کہتے تھے۔) اور جب کوئی کم مرتبہ شخص چوری کرلیتا تھا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہ بنت محمد چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ قریش یعنی بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، کچھ لوگوں نے کہا: آپ سے اس کے بارے میں کون بات چیت کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: اسامہ بن زید، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا تو آپ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: "A woman of Quraish, from banu Makhzum, stole, and she was brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). They said: 'Who will speak to him concerning her?' They said: 'Usamah bin Zaid.' So he came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and spoke to him. But he rebuked him, and he said; 'Among the Children of Israel, if a noble person stole, they would let him go. But if a low-class person stole, they would cut off his hand. By the One in whose hand is the soul of Muhammad, if Fatimah bint Muhammad were to steal, I would cut off her hand.