باب: وہ مقدار جس کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: The Value for which, if it is stolen, the (Thief's) Hand is to be cut off)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4906.
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ (امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:) راوی نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ (اسے غلطی لگی ہے۔)
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 409
أخرجه ابن ماجه ( 2 / 111 ) : حدثنا عمرو بن رافع حدثنا عبد الله بن المبارك
أنبأنا عيسى بن يزيد أظنه عن جرير بن يزيد عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير عن
أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكره .
و أخرجه النسائي ( 2 / 257 ) و أحمد ( 2 / 402 ) و كذا ابن الجارود في
" المنتقى " ( 801 ) و أبو يعلى في " مسنده " ( 287 / 1 ) من طرق عن ابن
المبارك به . إلا أنهم قالوا : " ثلاثين " بدل " أربعين " . و جمع بينهما على
الشك الإمام أحمد ( 2 / 362 ) في رواية من طريق زكريا بن عدي أنبأنا ابن مبارك
به فقال : " ثلاثين أو أربعين صباحا " .
و الظاهر أن الشك من ابن المبارك و أن الصواب رواية عمرو بن رافع عنه بلفظ
" أربعين " بدون شك لمجيئه كذلك من طريق أخرى كما يأتي .
و هذا الإسناد رجاله ثقات غير جرير بن يزيد و هو البجلي و هو ضعيف كما في
" التقريب " ، لكنه لم يتفرد به ، فقد أخرجه ابن حبان في " صحيحه " ( 1507 )
من طريق يونس بن عبيد عن عمرو بن سعيد عن أبي زرعة به و لفظه :
" إقامة حد بأرض خير لأهلها من مطر أربعين صباحا " .
و سنده صحيح رجاله كلهم ثقات .
ثم استدركت فقلت : إنه معلول ، فإن إسناده عند ابن حبان هكذا :
أخبرنا ابن قتيبة حدثنا محمد بن قدامة حدثنا ابن علية عن يونس بن عبيد به .
و كذا رواه أبو إسحاق المزكي في " الفوائد المنتخبة " ( 1 / 114 / 1 ) من طريق
أخرى عن ابن قدامة به و قال : " تفرد به محمد بن قدامة "
و هذا الإسناد و إن كان ظاهر الصحة ، و رجاله كلهم ثقات ، و منهم محمد بن قدامة
و هو ابن أيمن المصيصي قال النسائي : لا بأس به ، و قال مرة : صالح .
و قال الدارقطني : ثقة ، و قال مسلمة بن قاسم : ثقة صدوق .
أقول : فهو و إن كان ثقة كما رأيت ، فقد خالفه في إسناده من هو أوثق منه و أحفظ
، فقال النسائي عقب روايته السابقة :
" أخبرنا عمرو بن زرارة قال : أنبأنا إسماعيل ، قال : حدثنا يونس بن عبيد
عن جرير بن يزيد عن أبي زرعة قال : قال أبو هريرة : إقامة حد ... " .
فعمرو بن زرارة هذا هو ابن واقد النيسابوري المقرىء الحافظ ، و قد اتفقوا على
وصفه بأنه ثقة ، بل قال فيه محمد بن عبد الوهاب ( و هو ابن حبيب النيسابوري
الثقة العارف ) : ثقة ثقة . فهو بلا شك أوثق من ابن قدامة الذي قيل فيه :
" لا بأس به " ، " صدوق " ، و لذلك احتج به الشيخان بخلاف المذكور ، و قد خالفه
فى موضعين :
الأول : أنه أوقفه على أبي هريرة ، و ذاك رفعه .
و الآخر : أنه سمى شيخ يونس بن عبيد جرير بن زيد . و ذاك سماه عمرو ابن سعيد
و هذا ثقة ، و الذي قبله ضعيف كما سبق ، و إذا اختلفا في تسميته فالراجح رواية
ابن زرارة لأنه أوثق من مخالفه ، و إذا كان كذلك فقد رجعت هذه الرواية إلى أنها
من الوجه الأول ، و هو ضعيف كما عرفت .
ثم رأيت لابن زرارة متابعا و هو الحسن بن محمد الزعفراني ، رواه عنه المحاملي
في " الأمالي " ( 1 / 72 / 1 ) .
نعم الحديث حسن لغيره فإن له شاهدا من حديث ابن عباس مرفوعا بلفظ :
" حد يقام في الأرض أزكى فيها من مطر أربعين يوما " .
أخرجه سمويه في " الفوائد " و الطبراني في " الكبير " و الأوسط بإسناد .
قال المنذري و العراقي : " حسن " و فيه نظر بينته في " الأحاديث الضعيفة "
و لكنه لا بأس به في الشواهد .
و له شاهد آخر من حديث ابن عمر ، رواه ابن ماجه ، و الضياء في " المختارة "
( ق 90 / 1 ) ، لكن إسناده ضعيف جدا فيه سعيد بن سنان و هو الحمصي قال في
" التقريب " : " متروك ، رماه الدارقطني و غيره بالوضع " .
فمثله لا يستشهد به .
، المشكاة ( 3558 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4920
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4921
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4910
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ (امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:) راوی نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ (اسے غلطی لگی ہے۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری میں ہاتھ کاٹا، جس کی قیمت پانچ درہم تھی ، راوی نے اسی طرح کہا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ راوی کا وہم ہے کہ ڈھال کی قیمت پانچ درہم تھی، صحیح یہ ہے کہ اس کی قیمت تین درہم تھی، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Amr said: "The Messenger of Allah (ﷺ) cut off (a thief's hand) for a shield which was worth five Durham's." This is how he (the narrator) said it. (Daif)