باب: وہ مقدار جس کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: The Value for which, if it is stolen, the (Thief's) Hand is to be cut off)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4907.
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ) بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت درست ہے۔
تشریح:
(1) کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (۴۹۱۰) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے۔ پانچ درہم والی روایت شاذ (ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہٰذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں۔ نبی ﷺ کے دور میں دینار دس، بارہ درہم کا ہوتا تھا۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4921
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4922
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4911
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ) بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت درست ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (۴۹۱۰) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے۔ پانچ درہم والی روایت شاذ (ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہٰذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں۔ نبی ﷺ کے دور میں دینار دس، بارہ درہم کا ہوتا تھا۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال (چرانے) میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہی روایت صحیح اور درست ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Umar said: "The Messenger of Allah (ﷺ) cut off (a thief's hand) for a shield which was worth three Dirham." (Sahih) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasai) said: This is correct.