باب: ابوبکر بن محمد اور عبداللہ بن ابوبکر کا اس حدیث میں عمرہ پر اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Mentioning the Differences Reported by Abu Bakr bin Muhammad and 'Abdullah bin Abi Bakr From 'Amrah In This Hadith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4948.
حضرت عطاء اور مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ایمن بن ام ایمن نے مرفوعا (رسول اللہ ﷺ کا فرمان) بیان فرمایا کہ چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہیں کاٹا جائے گا۔ اور ڈھال کی قیمت ان دنوں ایک دینار تھی۔
تشریح:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے راوی حضرت ایمن صحابی ہیں۔ اور حضرت اسامہ ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔ لیکن یہ راوی کی غلطی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ایمن حبشی مکی ہیں جو تابعی تھے۔ کہا گیا ہے کہ انہیں حضرت زبیر یا ابن زبیر نے آزاد کیا تھا، اس لیے یہ روایت تابعی کی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو گی، نیز یہ صحیح روایات کے معارض ہونے کی وجہ سے بھی نا قابل حجت ہے، اس لیے محقق کتاب کا اسے صحیح کہنا درست نہیں۔ بالفرض اگر یہ ایمن واقعتا صحابی ایمن ہی مراد ہوں تو پھر بھی یہ روایت منقطع ہے کیونکہ حضرت عطاء اور مجاہد کی حضرت ایمن جو کہ صحابی ہیں سے ملاقات ہی نہیں۔ یہ دونوں بعد کے دور کے ہیں اور اس روایت (دینار یا دس درہم) کو بیان کرنے والے یہی دو بزرگ ہیں لہذا اگر ایمن تابعی ہیں تب بھی اور اگر صحابی ہیں تب بھی دونوں صورتوں میں سند منقطع ہے اور غیر معتبر، خصوصا جب کہ اس سے کم قیمت تین درہم یا چوتھائی دینار پر ہاتھ کاٹنا صحابہ کرام ؓ سے بلاشبہ ثابت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4962
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4963
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4951
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عطاء اور مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ایمن بن ام ایمن نے مرفوعا (رسول اللہ ﷺ کا فرمان) بیان فرمایا کہ چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہیں کاٹا جائے گا۔ اور ڈھال کی قیمت ان دنوں ایک دینار تھی۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے راوی حضرت ایمن صحابی ہیں۔ اور حضرت اسامہ ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔ لیکن یہ راوی کی غلطی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ایمن حبشی مکی ہیں جو تابعی تھے۔ کہا گیا ہے کہ انہیں حضرت زبیر یا ابن زبیر نے آزاد کیا تھا، اس لیے یہ روایت تابعی کی مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو گی، نیز یہ صحیح روایات کے معارض ہونے کی وجہ سے بھی نا قابل حجت ہے، اس لیے محقق کتاب کا اسے صحیح کہنا درست نہیں۔ بالفرض اگر یہ ایمن واقعتا صحابی ایمن ہی مراد ہوں تو پھر بھی یہ روایت منقطع ہے کیونکہ حضرت عطاء اور مجاہد کی حضرت ایمن جو کہ صحابی ہیں سے ملاقات ہی نہیں۔ یہ دونوں بعد کے دور کے ہیں اور اس روایت (دینار یا دس درہم) کو بیان کرنے والے یہی دو بزرگ ہیں لہذا اگر ایمن تابعی ہیں تب بھی اور اگر صحابی ہیں تب بھی دونوں صورتوں میں سند منقطع ہے اور غیر معتبر، خصوصا جب کہ اس سے کم قیمت تین درہم یا چوتھائی دینار پر ہاتھ کاٹنا صحابہ کرام ؓ سے بلاشبہ ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ایمن بن ام ایمن سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہاتھ ڈھال کی قیمت میں کاٹا جائے“ اور اس وقت اس کی قیمت ایک دینار تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ayman bin Umm Ayman who attributed it to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "The (hand of) a thief is not to be cut off except for the price of a shield, and in those days the price of a shield was a Dinar.