4954
.
حدثنا سوار بن عبد الله بن سوار قال حدثنا خالد بن الحارث قال حدثنا عبد الملك ح وأنبأنا عبد الرحمن بن محمد بن سلام قال أنبأنا إسحق هو الأزرق قال حدثنا به عبد الملك عن عطاء عن أيمن مولى ابن الزبير وقال خالد في حديثه مولى الزبير عن تبيع عن كعب قال من توضأ فأحسن الوضوء ثم صلى وقال عبد الرحمن فصلى العشاء الآخرة ثم صلى بعدها أربع ركعات فأتم وقال سوار يتم ركوعهن وسجودهن ويعلم ما يقترئ وقال سوار يقرأ فيهن كن له بمنزلة ليلة القدر
سنن نسائی:
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان
(
باب: ابوبکر بن محمد اور عبداللہ بن ابوبکر کا اس حدیث میں عمرہ پر اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Mentioning the Differences Reported by Abu Bakr bin Muhammad and 'Abdullah bin Abi Bakr From 'Amrah In This Hadith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4954.
حضرت عطاء نے حضرت ایمن مولیٰ ابن زبیر یا مولیٰ زبیر سے بیان کیا وہ روایت کرتے ہیں حضرت تبیع سے اور وہ بیان کرتے ہیں حضرت کعب سے انہوں نے فرمایا: جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر عشاء کی نماز (باجماعت) پڑھے، پھر اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے ان میں رکوع سجدہ پورا پورا کرے اور جو کچھ پڑھے، سوچ سمجھ کر پڑھے تو یہ چار رکعات اس کے لیے (ثواب کے لحاظ سے) لیلۃ القدر کی طرح بن جائیں گی۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد بالکل واضح ہے کہ حضرت عطاء کے استاد حضرت ایمن تابعی ہیں جو کبار تابعین سے بیان فرماتے ہیں، جیسے وہ اس روایت میں حضرت تبیع تابعی سے بیان کر رہے ہیں۔ اگر وہ صحابی ہوتے تو کسی صحابی سے یا رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے۔ باقی رہے صحابی رسول حضرت ایمن بن ام ایمن تو ان سے حضرت عطاء کی ملاقات ہی نہیں۔ آئندہ حدیث بھی اسی بات کی تائید کے لیے ذکر فرما رہے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4968
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4969
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4957
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عطاء نے حضرت ایمن مولیٰ ابن زبیر یا مولیٰ زبیر سے بیان کیا وہ روایت کرتے ہیں حضرت تبیع سے اور وہ بیان کرتے ہیں حضرت کعب سے انہوں نے فرمایا: جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر عشاء کی نماز (باجماعت) پڑھے، پھر اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے ان میں رکوع سجدہ پورا پورا کرے اور جو کچھ پڑھے، سوچ سمجھ کر پڑھے تو یہ چار رکعات اس کے لیے (ثواب کے لحاظ سے) لیلۃ القدر کی طرح بن جائیں گی۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد بالکل واضح ہے کہ حضرت عطاء کے استاد حضرت ایمن تابعی ہیں جو کبار تابعین سے بیان فرماتے ہیں، جیسے وہ اس روایت میں حضرت تبیع تابعی سے بیان کر رہے ہیں۔ اگر وہ صحابی ہوتے تو کسی صحابی سے یا رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے۔ باقی رہے صحابی رسول حضرت ایمن بن ام ایمن تو ان سے حضرت عطاء کی ملاقات ہی نہیں۔ آئندہ حدیث بھی اسی بات کی تائید کے لیے ذکر فرما رہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب الاحبار کہتے ہیں کہ جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو کیا پھر نماز ادا کی، (عبدالرحمٰن کی روایت میں ہے، پھر نماز عشاء کی جماعت میں شریک ہوا)، پھر اس کے بعد چار رکعتیں رکوع اور سجدہ کے اتمام کے ساتھ اور پڑھیں، اور جو کچھ قرأت کیا اسے سمجھا بھی تو یہ سب اس کے لیے شب قدر کے مثل باعث اجر ہوں گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ka'b said: "Whoever performs wudu and performs wudu, well, then prays ('Abdur-Rahman said: and prays Isha), then prays after that four Rakahs and does them well (Sawwar said: and understands what he is reciting (Sawwar said: and recites therein), they will be equivalent to (praying) Lailat Al-Qadr for him". (Hasan Maqtu)