Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Fruits on the tree that are Stolen)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4957.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (عبداللہ بن عمرو ؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہاتھ کتنے (مال) میں کاٹا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”درخت پر لگے ہوئے پھل توڑنے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، البتہ جب پھل توڑ کر ڈھیر لگا دیا گیا ہو تو ڈھال کی قیمت کے برابر چوری کرنے سے ہاتھ کاٹا جائے گا۔ (اسی طرح) پہاڑ پر چرتی بکری چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، البتہ بکری باڑے میں آ جائے تو پھر اسے چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال سے کم نہ ہو۔
تشریح:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ غیر محفوظ چیز چرانے پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی، البتہ کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے جو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے۔ درخت پر لگا ہوا پھل محفوظ تصور نہیں کیا جاتا، اسی طرح چرتا ہوا جانور، خواہ مملوکہ زمین میں ہی چر رہا ہو۔ ہاں، پھل توڑنے کے بعد کھلیان میں لگا دیا جائے تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب اس کو چرانے پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ ضابطہ ہے قطع ید کا کہ کسی غیر محفوظ چیز کو چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا، البتہ مالک پاس ہو تو چیز کو محفوظ تصور کیا جائے گا، خواہ وہ کھلے میدان یا کھیتوں میں پڑی ہو۔ (مزید دیکھیے حدیث: ۴۸۸۵)
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد ضعيف إلى عمرو , من أجل سويد بن عبد العزيز , فإنه
لين الحديث .
و أما سائر الطرق فكلها صحيحة إلى عمرو بن شعيب .
و يشهد له ما أخرجه مالك ( 2 / 831 / 22 ) عن عبد الله بن عبد الرحمن ابن
أبى حسين المكى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
" لا قطع فى ثمر معلق , و لا فى ( حريشة ) { كذا فى الأصل , و الصواب : حريسة }
جبل , فإذا آواه المراح أو الجرين , فالقطع فيما يبلغ ثمن المجن " .
و هذا سند مرسل صحيح , فإن عبد الله هذا ثقة , محتج به فى " الصحيحين " و هو
تابعى صغير , روى عن أبى الطفيل الصحابى , و عن التابعين .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4971
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4972
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4960
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (عبداللہ بن عمرو ؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہاتھ کتنے (مال) میں کاٹا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”درخت پر لگے ہوئے پھل توڑنے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، البتہ جب پھل توڑ کر ڈھیر لگا دیا گیا ہو تو ڈھال کی قیمت کے برابر چوری کرنے سے ہاتھ کاٹا جائے گا۔ (اسی طرح) پہاڑ پر چرتی بکری چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، البتہ بکری باڑے میں آ جائے تو پھر اسے چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال سے کم نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ غیر محفوظ چیز چرانے پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں ہوگی، البتہ کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے جو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے۔ درخت پر لگا ہوا پھل محفوظ تصور نہیں کیا جاتا، اسی طرح چرتا ہوا جانور، خواہ مملوکہ زمین میں ہی چر رہا ہو۔ ہاں، پھل توڑنے کے بعد کھلیان میں لگا دیا جائے تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب اس کو چرانے پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ ضابطہ ہے قطع ید کا کہ کسی غیر محفوظ چیز کو چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا، البتہ مالک پاس ہو تو چیز کو محفوظ تصور کیا جائے گا، خواہ وہ کھلے میدان یا کھیتوں میں پڑی ہو۔ (مزید دیکھیے حدیث: ۴۸۸۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: ہاتھ کتنے میں کاٹا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”درخت پر لگے پھل میں نہیں کاٹا جائے گا، لیکن جب وہ کھلیان میں پہنچا دیا جائے تو ڈھال کی قیمت میں ہاتھ کاٹا جائے گا، اور نہ پہاڑ پر چرنے والے جانوروں میں کاٹا جائے گا البتہ جب وہ اپنے رہنے کی جگہ میں آ جائیں تو ڈھال کی قیمت میں کاٹا جائے گا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : درخت پر لگے پھلوں اور میدان میں چرتے جانوروں کی چوری پر ہاتھ اس لیے نہیں کاٹا جائے گا کہ یہ سب ”حرز“ (محفوظ مقام) میں نہیں ہوتے، کھلیان اور باڑہ حرز (محفوظ مقام) ہوتے ہیں، یہاں سے چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shuaib, from his father, that his grandfather said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was asked: 'For how much is the hand (of the thief) to be cut off?' He said: 'The hand (of the thief) is not to be cut off for (stealing) fruit on the tree, but if (the fruit) has been taken to the place where it is stored to dry, then the (thief's) hand is to be cut off (if what is stolen is equivalent to) the price of a shield. The (thief's) hand is not to be cut off for a sheep (stolen) from the grazing land, but if it had been put in the pen, then the (thief's) hand is to be cut off (if what is stolen is equivalent to) the price of a shield.