باب: کھلیان میں رکھنے کے بعد اگر پھل چرا لیا جائے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Fruit after it has been put in the place where it is stored to dry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4958.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تو کوئی حاجت مند پھل توڑ کر کھا لے، ساتھ نہ لے جائے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اور اگر وہ پھل ساتھ بھی لے جائے تو اس سے دگنی قیمت وصول کی جائے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔ اور اگر کھلیان میں رکھنے کے بعد کسی شخص نے کوئی پھل اٹھا لیا اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر یا زائد ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈھال کی قیمت سے کم چرایا تو اس سے دگنی قیمت لے لی جائے گی اور اسے سزا بھی ملے گی۔“
تشریح:
(1) ”حاجت مند“ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہو۔ اتنی رقم بھی نہ ہو کہ کچھ خرید سکے۔ بھوک بھی شدید ہو۔ اس کے لیے پھل توڑ کر کھانا جائز ہے کیونکہ جان بچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر مالک پاس ہو تو اس سے اجازت حاصل کرے۔ وہ اجازت نہ دے تو ایسا لاچار شخص بلا اجازت بھی پھل توڑ کر کھا سکتا ہے۔ لیکن وہ صرف بھوک دور کرنے پر اکتفا کرے۔ ساتھ نہ لے کر جائے، نہ کپڑے میں ڈال کر نہ ہاتھ میں پکڑ کر۔ خبنہ میں یہ دونوں صورتیں داخل ہیں۔ (2) ”دگنی قیمت“ اصل قیمت تو خریدنے والے کو بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر اس کو بھی اصل قیمت ہی ڈالیں تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ (3) ”سزا بھی“ یعنی جسمانی سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیے جائیں گے، اس لیے کہ بعض لوگ جسمانی سزا سے بہت بچتے ہیں، جرمانے کی پروا نہیں کرتے اور بعض لوگ کنجوس۔ ’’دمڑی نہ جائے‘ چاہے چمڑی جائے“ کا مصداق ہوتے ہیں، اس لیے دونوں قسم کی سزا جاری فرمائی گئی تاکہ ہر قسم کے لوگ عبرت حاصل کریں۔ کھلیان سے پھل اٹھانا ضرورت کے لیے بھی جائز نہیں کیونکہ وہ حقیقتاً چوری ہے۔ اگر وہ مقرر حد تک پہنچ گیا تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ کم ہو گا تو دگنی قیمت اور سزا دونوں بھگتنی پڑیں گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وحسنه الترمذي، وصححه ابن الجارود والحاكم
والذهبي) .
إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا الليث عن ابن عجلان عن عمرو بن
شعيب عن أبيه عن جده عبد الله بن عمرو بن العاص.
قلت: وهذا إسناد حسن مشهور، وفيه فائدة هامة؛ وهي أن جده: هو عبد الله
ابن عمرو بن العاص، وليس هو محمداً؛ فإنه عمرو بن شعيب بن محمد بن
عبد الله بن عمرو بن العاص، وهذا يبيِّن أنه هو المراد إذا قال: عن جده ولم
يسفه، وقد سبق تحقيق ذلك.
والحديث أخرجه النسائي (2/260) و (1/34) - مختصراً-، والترمذي
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4972
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4973
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4961
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تو کوئی حاجت مند پھل توڑ کر کھا لے، ساتھ نہ لے جائے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اور اگر وہ پھل ساتھ بھی لے جائے تو اس سے دگنی قیمت وصول کی جائے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔ اور اگر کھلیان میں رکھنے کے بعد کسی شخص نے کوئی پھل اٹھا لیا اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر یا زائد ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈھال کی قیمت سے کم چرایا تو اس سے دگنی قیمت لے لی جائے گی اور اسے سزا بھی ملے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”حاجت مند“ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہو۔ اتنی رقم بھی نہ ہو کہ کچھ خرید سکے۔ بھوک بھی شدید ہو۔ اس کے لیے پھل توڑ کر کھانا جائز ہے کیونکہ جان بچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر مالک پاس ہو تو اس سے اجازت حاصل کرے۔ وہ اجازت نہ دے تو ایسا لاچار شخص بلا اجازت بھی پھل توڑ کر کھا سکتا ہے۔ لیکن وہ صرف بھوک دور کرنے پر اکتفا کرے۔ ساتھ نہ لے کر جائے، نہ کپڑے میں ڈال کر نہ ہاتھ میں پکڑ کر۔ خبنہ میں یہ دونوں صورتیں داخل ہیں۔ (2) ”دگنی قیمت“ اصل قیمت تو خریدنے والے کو بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر اس کو بھی اصل قیمت ہی ڈالیں تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ (3) ”سزا بھی“ یعنی جسمانی سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیے جائیں گے، اس لیے کہ بعض لوگ جسمانی سزا سے بہت بچتے ہیں، جرمانے کی پروا نہیں کرتے اور بعض لوگ کنجوس۔ ’’دمڑی نہ جائے‘ چاہے چمڑی جائے“ کا مصداق ہوتے ہیں، اس لیے دونوں قسم کی سزا جاری فرمائی گئی تاکہ ہر قسم کے لوگ عبرت حاصل کریں۔ کھلیان سے پھل اٹھانا ضرورت کے لیے بھی جائز نہیں کیونکہ وہ حقیقتاً چوری ہے۔ اگر وہ مقرر حد تک پہنچ گیا تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ کم ہو گا تو دگنی قیمت اور سزا دونوں بھگتنی پڑیں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہے، اور جو اسے کھلیان میں جمع کیے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shuaib, from his father, that his grandfather 'Abdullah bin 'Amr, that the Messenger of Allah (ﷺ) wsa asked about fruit on the tree. He said: "Whatever a needy person takes without putting any in his pocket (and taking it away), there is no penalty on him. But whoever takes anything away, he must pay a penalty of twice its value, and be punished. Whoever steals something after it has been stored properly, and its value is equal to that of a shield, his hand must be cut off. Whoever steals something worth less than that, he must pay a penalty of twice its value and be punished.