باب: اللہ تعالی ٰ کے فرمان : ’’بدوی کہتے ہیں ہم ایمان لائے کہہ دیجیے :(ابھی ) تم میں ایمان نہیں آیا بلکہ تم کہو ہم مسلمان ہو گئے،،کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Interpreting the Saying of Allah, The Mighty and Sublime: "The Bedouins say: We believe,)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4993.
حضرت سعد ؓ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال تقسیم فرمایا، کچھ لوگوں کو دیا، کچھ کونہ دیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا، اور فلاں کونہیں دیا، حالانکہ وہ بھی مومن ہے۔ آپ نے فرمایا: مومن نہ کہو، مسلمان کہو۔“ ابن شہاب (زہری) نے پھر آیت تلاوت کی: ( قالت الاعراب اٰ منا) ”دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5007
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5008
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4996
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت سعد ؓ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال تقسیم فرمایا، کچھ لوگوں کو دیا، کچھ کونہ دیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا، اور فلاں کونہیں دیا، حالانکہ وہ بھی مومن ہے۔ آپ نے فرمایا: مومن نہ کہو، مسلمان کہو۔“ ابن شہاب (زہری) نے پھر آیت تلاوت کی: ( قالت الاعراب اٰ منا) ”دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال تقسیم کیا تو کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے۔ آپ نے فرمایا: ”مومن نہ کہو، مسلم کہو۔“ ابن شہاب زہری نے یہ آیت پڑھی: «قالت الأعراب آمنا»۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sa'd that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) distributed (some spoils of war) and gave to some people but withheld from others. I said: "O Messenger of Allah, you gave to so-and-so and so-and-so, and you withheld from so-and-so, who is a beliver." He said: "Do not say 'a believer,' say 'a Muslim.'" Ibn Shihab (one of the narrators) said: The Bedouins say: "We believe"