Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Description of the Muslim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4996.
۔حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ”اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور اصل مہاجر وہ ہے جوا ن چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث اس بات کا شوق دلاتی ہے کہ ایک مسلمان شخص کو ہر حال میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کو کسی قسم کی ایذا اور تکلیف نہ پہنچائے بلکہ اسے دوسرے مسلمان کے لیے مفید ثابت ہو نا چاہیئے ،مضر اور موذی نہیں۔ (2) امام حسن بصری رح سے ”ابرار“ نیک وپارس شخص کی تعریف پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا: ھم الذین لا یوذون الذر ولا یرضون الشر ، یعنی ابرار وہ لوگ ہوتے ہیں جو چیونٹی تک کو ایذا نہیں پہنچاتے اور معمولی شر اور برائی کو پسند نہیں کرتے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی رد ہوتا ہے جن کا عقیدہ کہ کلمہ پڑھنے کے بعد سب کا اسلام کامل ہی ہوتا ہے، کسی کا نا قص نہیں ہوتا۔ (4) ”مہاجر“ ہجرت سےمقصود دین کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنا گھر بار چھوڑ دے لیکن اللہ تعالی ٰ کی نافرما نی نہ چھوڑے، اس کی ہجرت بے مقصد ہے۔ البتہ جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی چھوڑ دیتا ہے، خواہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے، اس نے ہجر ت کا مقصد پورا کر لیا۔ اور اصل مہاجر وہ ہو ا نہ کہ صرف گھر چھوڑنے والا۔
الحکم التفصیلی:
صحیح ابوداؤد:2243
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحه) .
إسناده: حدثا مسدد: ثنا يحيى عن إسماعيل بن أبي خالد: ثنا عامر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو من رجال
البخاري وحده، لكنه قد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (2/163 و 192) : ثنا يحيى بن سعيد... به.
وأخرجه النسائي (2/267) من طريق أخرى عن يحيى... به.
وأخرجه البخاري (1/267) ، وأحمد (2/193 و 212 و 224) من طريق
زكريا- وهو ابن أبي زائدة- عن عامر: سمعت عبد الله بن عمرو... به مرفوعاً.
وتابعه شعبة عن إسماعيل وعبد الله بن أبي السَّفَرِ عن الشعبي... به:
أخرجه أحمد (2/205 و 212) .
وله عنده (2/206 و 215) طريق أخرى عن موسى بن علَيّ قال: سمعت
أبي يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص قال. سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يقول:
" تدرون من المسلم؟ ". قالوا: الله ورسوله أعلم! قال... (فذكر الشطر الأول
منه) . قال:
" تدرون من المؤمن؟ ". قالوا: الله ورسوله أعلم! قال:
" مَنْ أمِنَه المؤمنون على أنفسهم وأموالهم، والمهاجر مَنْ هَجَرَ السوء واجتنبه ".
وسنده صحيح على شرط مسلم.
الروض النضير ( 591 ) ، صحيح أبي داود ( 1243 ) // صحيح الجامع ( 6711 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5010
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5011
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4999
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
۔حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ”اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور اصل مہاجر وہ ہے جوا ن چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث اس بات کا شوق دلاتی ہے کہ ایک مسلمان شخص کو ہر حال میں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمان کو کسی قسم کی ایذا اور تکلیف نہ پہنچائے بلکہ اسے دوسرے مسلمان کے لیے مفید ثابت ہو نا چاہیئے ،مضر اور موذی نہیں۔ (2) امام حسن بصری رح سے ”ابرار“ نیک وپارس شخص کی تعریف پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا: ھم الذین لا یوذون الذر ولا یرضون الشر ، یعنی ابرار وہ لوگ ہوتے ہیں جو چیونٹی تک کو ایذا نہیں پہنچاتے اور معمولی شر اور برائی کو پسند نہیں کرتے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی رد ہوتا ہے جن کا عقیدہ کہ کلمہ پڑھنے کے بعد سب کا اسلام کامل ہی ہوتا ہے، کسی کا نا قص نہیں ہوتا۔ (4) ”مہاجر“ ہجرت سےمقصود دین کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنا گھر بار چھوڑ دے لیکن اللہ تعالی ٰ کی نافرما نی نہ چھوڑے، اس کی ہجرت بے مقصد ہے۔ البتہ جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی چھوڑ دیتا ہے، خواہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے، اس نے ہجر ت کا مقصد پورا کر لیا۔ اور اصل مہاجر وہ ہو ا نہ کہ صرف گھر چھوڑنے والا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”(حقیقی اور کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور (حقیقی) مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: "The Muslim is the one from whose tongue and hand the Muslims are safe, and the Muhajir is the one who forsakes (Hajara) that which Allah has forbidden to him.