Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Description of the Muslim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4997.
حضرت انس ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمار ذبح کیا ہوا جانور کھائے، وہ مسلمان ہے۔“
تشریح:
یہ مسلمان کے ظاہری اوصاف ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بعد عبادات میں سے نماز ہی ایسی عبادت ہے جو اسلام کی علامت بن سکتی ہے کیو نکہ روزہ مخفی چیز ہے جبکہ زکاۃ ہر کسی پر فرض نہیں۔ ویسے بھی وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہوتی ہے۔ حج تو ہے ہی زندگی میں ایک بار اور وہ بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ پھر نماز چونکہ تمام ادیان میں موجود ہے، اس لیے مسلمانوں کی نماز کا امتیاز قبلے سے ہوگا کیو نکہ ہر دین کا لگ قبلہ ہوتا ہے۔ عبادات کے بعد معاملات اور معاشرت کا درجہ ہے۔ کفار کےنزدیک حلال وحرام کا کوئی تصور نہیں تھا، نیز ان کے نزدیک ذبیحہ اور میتہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنامسلمان کی خصوصیت ہے، لہذا وہ مسلمان ہے جو اللہ تعالی کے نام پر ذبح شدہ جانور کھائے، خود ذبح کرے یا کوئی اور کرے۔ یہ مسلمانوں کی معاشرتی علامت ہے اور ظاہر ہے۔ باقی علامات مخفی ہیں ،اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5011
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5012
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5000
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت انس ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمار ذبح کیا ہوا جانور کھائے، وہ مسلمان ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ مسلمان کے ظاہری اوصاف ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بعد عبادات میں سے نماز ہی ایسی عبادت ہے جو اسلام کی علامت بن سکتی ہے کیو نکہ روزہ مخفی چیز ہے جبکہ زکاۃ ہر کسی پر فرض نہیں۔ ویسے بھی وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہوتی ہے۔ حج تو ہے ہی زندگی میں ایک بار اور وہ بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ پھر نماز چونکہ تمام ادیان میں موجود ہے، اس لیے مسلمانوں کی نماز کا امتیاز قبلے سے ہوگا کیو نکہ ہر دین کا لگ قبلہ ہوتا ہے۔ عبادات کے بعد معاملات اور معاشرت کا درجہ ہے۔ کفار کےنزدیک حلال وحرام کا کوئی تصور نہیں تھا، نیز ان کے نزدیک ذبیحہ اور میتہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنامسلمان کی خصوصیت ہے، لہذا وہ مسلمان ہے جو اللہ تعالی کے نام پر ذبح شدہ جانور کھائے، خود ذبح کرے یا کوئی اور کرے۔ یہ مسلمانوں کی معاشرتی علامت ہے اور ظاہر ہے۔ باقی علامات مخفی ہیں ،اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو ہمارے جیسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ اعمال اسلام کے مظاہر اور شرائط ہیں۔ یہ حقیقی بھی ہو سکتے ہیں اور بناوٹی بھی، اگر حقیقی ہوں گے تو یہ ایمان کامل کے مظاہر ہوں گے، اور اگر بناوٹی ہوں گے تو نفاقاً ہو گا، اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ جو صرف ان چند متعین اور خاص اعمال کو انجام دے لے وہ مسلمان ہو گیا، یہ باتیں خاص طور پر اس وقت کے یہود و نصاریٰ کے تناظر میں کہی گئی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے، مسلمانوں کے قبلے کی طرف نماز نہیں پڑھتے تھے، اور نہ ہی مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتے تھے۔ آج کل کی دیگر غیر مسلم قومیں بھی ایسا نہیں کرتیں، اور بعض نام نہاد مسلمان ان سب اعمال کو انجام دے کر بھی شرک میں مبتلا ہیں تو یہ بھی مسلم نہیں ہیں۔ مگر ان کے ساتھ حرب و مقاطعہ جیسے معاملات سو فیصد اس طرح نہیں کیے جائیں گے جس طرح کھلم کھلا کفار و مشرکین کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ان کے لیے دعوت الی الحق اور وعظ و نصیحت ہو گی جب کہ یہود و نصاریٰ اور ہنود و مشرکین کے ساتھ جہاد و قتال ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: "The Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Whoever prays as we pray, turns to face the same Qiblah as us and eats our slaughtered animals, that is a Muslim.