باب: اہل ایمان (درجات کے لحاظ سے ) ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں
)
Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Variation in People's Level of Faith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5008.
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص برا کام ہوتا دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے ختم کر دے اور اگر طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ روکے اور اگراس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہوتو اپنے دل سے برا جانے۔ اور یہ (آخری درجہ) کمزور ترین ایمان ہے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ضروری ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان فلیغیرہ ”اسے مٹا ڈال“ اس کا بین ثبوت ہے۔ لیکن یہ فرضیت فرض کفایہ کے طور پر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر )(آل عمران 3:104) ”تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر وبھلائی کیطرف بلائے اور وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سےروکنے۔“ (2) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ سر انجام دینے والے کے لیے دوشرطین ہیں: ایک یہ کہ اسے علم ہو کہ جس بات کاوہ حکم دے رہا ہے وہ شرعا ”معروف“ یعنی نیکی ہی ہے اور جس بات سے وہ روک رہا ہے، شریعت میں وہ واقعی ”منکر“ یعنی ناروا اور جائز کام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی جاہل یہ فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ (3) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ مراتب ودرجات ہیں: پہلا درجہ یہ کہ برائی کو ہاتھ سے روکا جائے۔ زبان سے روکنا دوسرا درجہ ہے۔ کم زور ترین اور آخری درجہ یہ ہے کہ صرف دل میں برا سمجھے۔ اگر یہ بھی نہیں ہےتو پھر اس کے پلے میں کچھ بھی نہیں ۔ایسا شخص ایمان سے خالی ہے، تاہم اس کے لیے حکمت عملی سےکام لینا ضروری ہے۔ لڑائی جھگڑا سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ اس کے نقصانات ،فوائد سے زیادہ ہیں۔ (4) ”اپنے ہاتھ سےختم کرے“ کا طلب ہے کہ اگر وہ صاحب اقتدار ہو کیونکہ عام آدمی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ورنہ اس یے انار کی اور بدامنی پیدا ہوگی۔ حدود کانفاذ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ افراد انھیں نافذ نہیں کر سکتے اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں۔ تبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت اور طاقت کی شرط لگائی ہے۔ (5) ”زبان کے ساتھ“ یہ ہر شخص کی ذمے داری ہے کیونکہ زبان کا استعمال تو ہر شخص کے اختیار میں ہے، الا یہ کہ مرتبہ کم ہو، مثلا اولاد ماں باپ ک سامنے، شاگرد استاد کے سامنے، محکوم حاکم کے سامنے اور غلام آقا کے سامنے بولنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یا جب جان جانے کا خطرہ ہو جیسا کہ آگے حدیث میں آرہا ہے۔ (6) ”کم زور ترین ایمان“ معلوم ہوا ایمان قوی اور کمزور ہو سکتا ہے۔ یہی باب کامقصد ہے۔ آخری درجے کو کمزور ترین کہنا برائی کے خاتمے کے لحاظ سے ہے، یعنی اس سے برائی ختم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ باقی رہا ثواب کے لحاظ سے تو وہ دوسروں کے برابر ہو سکتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنے مرتبے اورفرائض کے حساب ہی جواب دہ ہے (لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا) (البقرۃ2:286)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
5027
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
5008
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4922
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
5008
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5022
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5023
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5011
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص برا کام ہوتا دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے ختم کر دے اور اگر طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ روکے اور اگراس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہوتو اپنے دل سے برا جانے۔ اور یہ (آخری درجہ) کمزور ترین ایمان ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ضروری ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان فلیغیرہ ”اسے مٹا ڈال“ اس کا بین ثبوت ہے۔ لیکن یہ فرضیت فرض کفایہ کے طور پر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر )(آل عمران 3:104) ”تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر وبھلائی کیطرف بلائے اور وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سےروکنے۔“ (2) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ سر انجام دینے والے کے لیے دوشرطین ہیں: ایک یہ کہ اسے علم ہو کہ جس بات کاوہ حکم دے رہا ہے وہ شرعا ”معروف“ یعنی نیکی ہی ہے اور جس بات سے وہ روک رہا ہے، شریعت میں وہ واقعی ”منکر“ یعنی ناروا اور جائز کام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی جاہل یہ فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ (3) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ مراتب ودرجات ہیں: پہلا درجہ یہ کہ برائی کو ہاتھ سے روکا جائے۔ زبان سے روکنا دوسرا درجہ ہے۔ کم زور ترین اور آخری درجہ یہ ہے کہ صرف دل میں برا سمجھے۔ اگر یہ بھی نہیں ہےتو پھر اس کے پلے میں کچھ بھی نہیں ۔ایسا شخص ایمان سے خالی ہے، تاہم اس کے لیے حکمت عملی سےکام لینا ضروری ہے۔ لڑائی جھگڑا سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ اس کے نقصانات ،فوائد سے زیادہ ہیں۔ (4) ”اپنے ہاتھ سےختم کرے“ کا طلب ہے کہ اگر وہ صاحب اقتدار ہو کیونکہ عام آدمی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ورنہ اس یے انار کی اور بدامنی پیدا ہوگی۔ حدود کانفاذ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ افراد انھیں نافذ نہیں کر سکتے اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں۔ تبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت اور طاقت کی شرط لگائی ہے۔ (5) ”زبان کے ساتھ“ یہ ہر شخص کی ذمے داری ہے کیونکہ زبان کا استعمال تو ہر شخص کے اختیار میں ہے، الا یہ کہ مرتبہ کم ہو، مثلا اولاد ماں باپ ک سامنے، شاگرد استاد کے سامنے، محکوم حاکم کے سامنے اور غلام آقا کے سامنے بولنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یا جب جان جانے کا خطرہ ہو جیسا کہ آگے حدیث میں آرہا ہے۔ (6) ”کم زور ترین ایمان“ معلوم ہوا ایمان قوی اور کمزور ہو سکتا ہے۔ یہی باب کامقصد ہے۔ آخری درجے کو کمزور ترین کہنا برائی کے خاتمے کے لحاظ سے ہے، یعنی اس سے برائی ختم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ باقی رہا ثواب کے لحاظ سے تو وہ دوسروں کے برابر ہو سکتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنے مرتبے اورفرائض کے حساب ہی جواب دہ ہے (لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا) (البقرۃ2:286)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی جب بری بات دیکھے تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ کے ذریعہ دور کر دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے دل کے ذریعہ اس کو دور کر دے، یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے یعنی جو دل کے ذریعہ برائی کو ختم کرے گا وہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ برائی کو دور کرنے والے سے ایمان میں کم ہو گا اور دل کے ذریعہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو برا جانے اور اس سے دور رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'eed said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'Whoever among you sees an evil, let him change it with his hand; if he cannot, then with his tongue; if he cannot, then with his heart- and that is the weakest of Faith.