Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: The Sign of a Hypocrite)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5020.
حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا: ”چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں (سب کی سب) پائی جائیں، وہ (خالص) منافق ہوگا اور جس شخص میں ان چار میں سے کوئی ایک پائی جائے، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے:٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔٭جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔٭جب عہد کرے تو خلاف ورزی کرے۔٭جب عہد کرے تو بے وفائی کرے۔ ٭جب لڑائی کرے تو گالی بکے۔“
تشریح:
(1) حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رۡذیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہوا ہے، چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں۔ قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں، مثلا: نماز میں سستی کرنا، دکھلاوے کی عبادت کرنا، دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق) کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے، یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں۔ اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں ۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے، نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے، جھوٹ ہی بولے۔ جب بھی وعدہ کرے، خلاف ورزی ہی کرے ۔جب بھی عہد کرے، تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5034
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5035
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5023
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا: ”چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں (سب کی سب) پائی جائیں، وہ (خالص) منافق ہوگا اور جس شخص میں ان چار میں سے کوئی ایک پائی جائے، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے:٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔٭جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔٭جب عہد کرے تو خلاف ورزی کرے۔٭جب عہد کرے تو بے وفائی کرے۔ ٭جب لڑائی کرے تو گالی بکے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رۡذیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہوا ہے، چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں۔ قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں، مثلا: نماز میں سستی کرنا، دکھلاوے کی عبادت کرنا، دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق) کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے، یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں۔ اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں ۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے، نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے، جھوٹ ہی بولے۔ جب بھی وعدہ کرے، خلاف ورزی ہی کرے ۔جب بھی عہد کرے، تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس میں چار چیزیں ہوں، وہ منافق ہے، یا ان چار میں سے کوئی ایک خصلت (عادت) ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، عہد و پیمان کرے تو توڑ دے، اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin 'Amr that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There are four (traits), whoever has them is a hypocrite and whoever has one of them, then has one of the traits of hypocrisy, until he gives it up: When he speaks, he lies; when he makes a promise, he breaks it; when he makes a covenant, he betrays it; and when he argues, he resorts to foul language.