Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: The Sign of a Hypocrite)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5023.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےفرمایا تین عادتیں جس میں پائی جائیں، وہ منافق ہوگا: جب بات کر ے، جھوٹ بولے ۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے، خلاف ورزی کرے۔ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک عادت پائی جائے۔ اس میں نفاق کی خصلت رہے گی حتی ٰ کہ اسے چھوڑ دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5037
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5038
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5026
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےفرمایا تین عادتیں جس میں پائی جائیں، وہ منافق ہوگا: جب بات کر ے، جھوٹ بولے ۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے، خلاف ورزی کرے۔ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک عادت پائی جائے۔ اس میں نفاق کی خصلت رہے گی حتی ٰ کہ اسے چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں، وہ منافق ہے: جب بات چیت کرے تو جھوٹ بولے، جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک عادت ہو تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Wa'il said: "Abdullah said: 'There are three (traits), whoever has them is a hypocrite: When he speaks, he lies; when he is entrusted with something, he betrays that trust; and when he makes a promise, he breaks it. Whoever has one of these (traits) then a trait of hypocrisy has not ceased in him, until he leaves it.'" (Sahih Mawquf)