Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: The Fitrah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5040.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت انسانیہ کا تقاضا ہیں: مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں اور پوروں کو اچھی طرح دھونا، ڈاڑھی پوری رکھنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا (اور ناک کی صفائی کرنا) بغلوں کے بال اکھیڑنا، شرم گاہ کے بال مونڈنا، پانی کے ساتھ استنجا کرنا۔ مصعب بن شیبہ (راوئ حدیث) نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ امید ہے کہ وہ کلی کرنا ہوگا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امور فطرت صرف دس چیزیں نہیں بلکہ یہ دس تو کچھ امور فطرت ہیں۔ یہ اس لیے کہ حدیث کے الفاظ ہیں: عشرة من الفطرة، اور لفظ من تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ امور فطرت یہ ہیں نہ کہ سارے امور فطرت کا یہاں احاطہ ہے۔ بعض احادیث میں دس کے بجائے پانچ اشیاء کو امور فطرت کہاگیا ہے،وہاں بھی احاطہ اور حصر مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ان دس چیزوں کے فطرت ہونے سے مراد یہ ہے کہ فطرت انسانیہ ان امور کا تقاضا کرتی ہے ۔ فطرت کے معنی سنت بھی کیے گئے ہیں کیونکہ دین اسلام بھی تو فطرت انسانیہ کے عین مطابق ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام ان چیزوں پر عمل پیرا رہے۔ ان میں سے اکثر امور کی تفصیل کتاب الطہارۃ میں بیان ہوچکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث:3تا15) 3۔ براحم، برجمة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ تمام جگہیں ہیں جہاں میل کچیل جمع ہوتاہے اور توجہ نہ کی جائے تو پانی وہاں نہیں پہنچتا، مثلاً: انگلیوں کی گرہیں اور پور، جسم کے دیگر جوڑ اور ہتھیلی کی لکیریں وغیرہ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت انسانیہ کا تقاضا ہیں: مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں اور پوروں کو اچھی طرح دھونا، ڈاڑھی پوری رکھنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا (اور ناک کی صفائی کرنا) بغلوں کے بال اکھیڑنا، شرم گاہ کے بال مونڈنا، پانی کے ساتھ استنجا کرنا۔ مصعب بن شیبہ (راوئ حدیث) نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ امید ہے کہ وہ کلی کرنا ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امور فطرت صرف دس چیزیں نہیں بلکہ یہ دس تو کچھ امور فطرت ہیں۔ یہ اس لیے کہ حدیث کے الفاظ ہیں: عشرة من الفطرة، اور لفظ من تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ امور فطرت یہ ہیں نہ کہ سارے امور فطرت کا یہاں احاطہ ہے۔ بعض احادیث میں دس کے بجائے پانچ اشیاء کو امور فطرت کہاگیا ہے،وہاں بھی احاطہ اور حصر مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) ان دس چیزوں کے فطرت ہونے سے مراد یہ ہے کہ فطرت انسانیہ ان امور کا تقاضا کرتی ہے ۔ فطرت کے معنی سنت بھی کیے گئے ہیں کیونکہ دین اسلام بھی تو فطرت انسانیہ کے عین مطابق ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام ان چیزوں پر عمل پیرا رہے۔ ان میں سے اکثر امور کی تفصیل کتاب الطہارۃ میں بیان ہوچکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث:3تا15) 3۔ براحم، برجمة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ تمام جگہیں ہیں جہاں میل کچیل جمع ہوتاہے اور توجہ نہ کی جائے تو پانی وہاں نہیں پہنچتا، مثلاً: انگلیوں کی گرہیں اور پور، جسم کے دیگر جوڑ اور ہتھیلی کی لکیریں وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دس چیزیں فطرت ۲؎ (انبیاء کی سنت) ہیں (جو ہمیشہ سے چلی آ رہی ہیں): مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے پوروں اور جوڑوں کو دھونا، ڈاڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، استنجاء کرنا۔“ مصعب بن شبیہ کہتے ہیں: دسویں بات میں بھول گیا، شاید وہ ”کلی کرنا ہو“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عنوان کتاب : «کتاب الزینة من السنن» ہے، یعنی یہ احادیث سنن کبریٰ سے ماخوذ ہیں ، جن کے نمبرات کا حوالہ ہم نے ہر حدیث کے آخر میں دے دیا ہے، اس کے بعد دوسرا عنوان: «کتاب الزینة من المجتبیٰ» ہے، یعنی اب یہاں سے منتخب ابواب ہوں گے جو ظاہر ہے کہ سنن کبریٰ سے ماخوذ ہوں گے یا مؤلف کے جدید اضافے ہوں گے، اس تنبیہ کی ضرورت اس واسطے ہوئی کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے نسخے میں عنوان کتاب صحیح آیا ہے، اور مولانا نے اس پر حاشیہ لکھ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کتاب میں یہ ابواب ”سنن کبریٰ“ سے منقول ہیں، لیکن مولانا وحیدالزماں کے مترجم نسخے میں «کتاب الزینۃ : باب من السنن الفطرۃ» مطبوع ہے، اور حدیث کے ترجمہ میں آیا ہے: دس باتیں پیدائشی سنت ہیں ( یعنی ہمیشہ سے چلی آتی ہیں، سب نبیوں نے اس کا حکم کیا ) ( ۳/۴۵۵ ) اور اس کا ترجمہ ”کتاب آرائش کے بیان میں“ ، پھر نیچے پیدائشی سنتیں لکھا ہے، اور مشہور حسن کے نسخے میں «کتاب الزینۃ من السنن الفطرۃ» مطبوع ہے، جب کہ «من السنن» کا تعلق «کتاب الزینۃ» سے ہے۔ ۔ ۲؎ : اکثر علماء نے فطرت کی تفسیر سنت سے کی ہے ، گویا یہ خصلتیں انبیاء کی سنت ہیں جن کی اقتداء کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قول : «فبهداهم اقتده» ( سورة الأنعام : 90 ) میں دیا ہے، بعض علماء اس کی تفسیر ”فطرت“ ہی سے کرتے ہیں ، یعنی یہ سب کام انسانی فطرت کے ہیں جس پر انسان کی خلقت ہوئی ہے ، بعض علماء دونوں باتوں کو ملا کر یوں تفسیر کرتے ہیں کہ یہ سب حقیقی انسانی فطرت کے کام ہیں اسی لیے ان کو انبیاء علیہم السلام نے اپنایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA) that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Ten things are part of the Fitrah: Trimming the mustache, trimming the nails, washing the joints, letting the beard grow, using the Siwak, rinsing the nose, plucking the armpit hairs, shaving the pubes, and washing with water (after relieving oneself)." Mus'ab bin Shaibah said: "I have forgotten the tenth, unless it was rinsing the mouth.