تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی مبارک انگوٹھی آپ کی وفات کے بعد خلفاء کے ہاتھ میں بطور ضرورت وتبرک رہی نہ کہ بطور ملکیت۔ جب وہ انگوٹھی گم ہو گئی تو فتنہ وفساد کا دور شروع ہو گیا۔ گویا ایک بہت بڑی برکت اٹھ گئی۔ آخر خاتم النبین ﷺ کی انگوٹھی تھی۔ فداه أبي وأمي، نفسي وروحي ﷺ۔
(2) ”خطوط کی کثرت“ تو ان کو بار بار مہر لگانے میں وقت ہوتی تھی۔ انہوں نے مہر لگانے کے لیے ایک انصاری کو مقرر فرما لیا۔
(3) ”ایک کنویں“ اس کنویں کا نام بئر اریس تھا۔ انگوٹھی تلاش کرنے کے لیے کنویں کو پانی سے خالی کیا گیا اور پھر انچ انچ جگہ چھانی گئی مگر انگوٹھی کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ إِنّا لِلَّـهِ وَإِنّا إِلَيهِ راجِعونَ۔
(4) ”الفاظ کندہ کروائے“ احادیث صحیحہ میں واضح طورپر موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھیوں پر یہ الفاظ کندہ کرانے سے لوگوں کوروک دیا تھا لیکن یہ انگوٹھی تواصل انگوٹھی کے قائم مقام تھی، اس لیے اس پر یہ الفاظ کندہ کرائے گئے، نیز آپ کا مقصد اشتباہ اور جعل سازی کی بندش تھا۔ اصل کے گم ہونے پر نقل کی تیاری سے یہ خدشہ نہیں ہوتا۔ اشتباہ اور جعل سازی توتب ہوتی اگر بیک وقت کئی انگوٹھیاں ایک نقش والی ہوتیں۔ گویا احکام کا مدار مقاصد ہوتے ہیں نہ کہ ظاہر الفاظ ۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے۔ اس جیسے نقش والی انگوٹھی بنوانے سے ممانعت کی اک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس نقش کی حیثیت سرکار ی تھی، اس لیے آپ کے بعد خلفائے راشدین وہ انگوٹھی استعمال کرتے رہے اور اس کے گم ہونے پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی نقش والی انگوٹھی بنوائی۔ واللہ أعلم