باب: جو شخص عہدۂ قضا کا طالب اور حریص ہو اسے قاضی مقرر نہ کیا جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Not Appointing One Who is Eager to be a Judge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5382.
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ اشعری لوگ آئے اور کہا: ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلیں کیونکہ ہمیں (آپ سے) ایک کام ہے۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ وہ آپ سے کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں کسی کام پر مقرر فرمائیے۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: میں نے ان کی اس بات پر (آپ سے) معذرت کی اور آپ کو بتلایا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ انہیں کیا کام ہے؟ (ورنہ میں ان کے ساتھ نہ آتا) آپ نے مجھے سچا جانتے ہوئے میری معذرت کو تسلیم فرمایا اور ارشاد فرمایا: ”ہم کسی ایسے شخص کو اپنے کسی کام پر مقرر نہیں کرتے جو خود طلب کرے۔“
تشریح:
جو شخص عہدے کا حریص ہو، وہ دیانت داری کےساتھ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکے گا۔ وہ اپنے عہدے کو شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا، نیز اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق بھی حاصل نہیں ہوگی، لہٰذا اسے عہدے پر مقرر نہ کیا جائے۔ البتہ اگر حکومت خود درخواستیں طلب کرے تو درخواست دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے شخص کو عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۴)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ اشعری لوگ آئے اور کہا: ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلیں کیونکہ ہمیں (آپ سے) ایک کام ہے۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ وہ آپ سے کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں کسی کام پر مقرر فرمائیے۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا: میں نے ان کی اس بات پر (آپ سے) معذرت کی اور آپ کو بتلایا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ انہیں کیا کام ہے؟ (ورنہ میں ان کے ساتھ نہ آتا) آپ نے مجھے سچا جانتے ہوئے میری معذرت کو تسلیم فرمایا اور ارشاد فرمایا: ”ہم کسی ایسے شخص کو اپنے کسی کام پر مقرر نہیں کرتے جو خود طلب کرے۔“
حدیث حاشیہ:
جو شخص عہدے کا حریص ہو، وہ دیانت داری کےساتھ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکے گا۔ وہ اپنے عہدے کو شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا، نیز اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق بھی حاصل نہیں ہوگی، لہٰذا اسے عہدے پر مقرر نہ کیا جائے۔ البتہ اگر حکومت خود درخواستیں طلب کرے تو درخواست دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے شخص کو عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۴)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم سے اپنا کوئی کام لیجئیے۱؎ میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چنانچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا: ہم اپنے کام (عہدے) میں ایسے لوگوں کو نہیں لگاتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ہمیں کوئی عہدہ دیجئیے۔ ۲؎ : یعنی جو شخص منصب و عہدے کا طالب ہو ہم اسے یہ چیز نہیں دیتے کیونکہ اگر اسے صحیح طور پر انجام نہ دے سکا تو ایسے شخص کی صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت کی تباہی و بربادی کا بھی ڈر ہے، اور عہدہ و منصب کا طالب تو وہی ہو گا جو حصول دنیا کا خواہاں ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Musa said: "Some people from among the Ash'aris came to me and said: 'Go with us to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), for we have something to ask him.' So I went with them, and they said: 'O Messenger of Allah, use us to do your work.'" Abu Musa said: "I apologized for what they said, and I told him that I did not know what they were going to ask. He believed me and excused me, and said: 'We do not appoint for our work anyone who asks for that.