باب: (فیصلہ کرنے کے لیے) عورتوں کو قاضی (یا حاکم) مقرر کرنے کی ممانعت
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Prohibition of Appointing Women for Judgment)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5388.
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک فرمان کی بدولت بچا لیا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ جب (شاہ ایران) کسریٰ مر گیا تو آپ نے پوچھا: ”ان لوگوں (ایرانیوں) نے کسے جانشین بنایا ہے۔“ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو آپ نے فرمایا: ”وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جنہوں نے اپنی حکومت ایک عورت کے سپرد کردی۔“
تشریح:
(1) عورت کو قاضی اور جج بنانا اور اس سے فیصلے کرانا درست نہیں، شرعاً یہ ممنوع ہے۔ (2) عورت کا دائرہ کار مرد کے دائرہ کار سے مختلف ہے۔ عورت کے ذمے گھریلو امور کی نگرانی ہے جب کہ بیرونی امور، مثلاً: کاروبار، ملازمت، حکومت و قضاء وغیرہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ پھر جن معاملات میں مرد و عورت کا اختلاط ہوتا ہے، ان میں عورت ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی۔ اسی لیے عورت کا امام نہیں بنایا جا سکتا، خواہ وہ صاحب علم و فضل ہی ہو۔ قضاء اور امارت میں تو عموماً واسطہ ہی مردوں سے پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ گھریلو معاملہ نہیں، لہٰذا عورت کے لیے قضاء و امارت جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں کسی عورت کو کسی ملکی منصب پر مقرر نہیں کیا گیا اگرچہ اس دور میں بلند مرتبہ خواتین کی کمی نہیں تھی کیونکہ وہ پردے میں رہنے کی پابند ہیں۔ بعد والے ادوار میں بھی اس بات پر ہی عمل جاری رہا۔ اور اہل علم کا بھی اس بات پر اجماع ہے۔ (3) ”بچا لیا“ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ حضرت عائشہ عنہا کی طرف ہے۔ جب وہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں مکہ سے بصرہ تشریف لائی تھیں۔ ان کے ساتھ بڑے بڑے صحابہ تھے۔ راستے میں لوگ ملتے گئے حتیٰ کہ لشکر عظیم بن گیا کیونکہ ان کا مطالبہ صحیح تھا، اس لیے حضرت ابوبکرہ ؓ نے بھی ان کا ساتھ دینے کا ارادہ فرمایا مگر جب دیکھا کہ لشکر کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہے تو مندرجہ بالا فرمان رسول کے پیش نظر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ (4) اگرچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ تو حکومت کے خواہاں تھیں، نہ کوئی عہدہ طلب کر رہی تھیں صرف قصاص کا مطالبہ کر رہی تھیں اور یہ مطالبہ ہر مسلمان کر سکتا تھا مگر لشکر کی قیادت کی صورت میں یہ بات مناسب نہیں تھی۔ اس پر وہ خود بھی بعد میں اظہار تأسف کرتی رہیں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، لہٰذا کوئی اعتراض نہ رہا۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا (5) ”اس کی بیٹی کو“ درمیان میں کسریٰ پرویز کا بیٹا بھی بادشاہ رہا مگر وہ صرف چھ مہینے کے لیے، اس لیے اس کا شمار نہیں کیا گیا۔ (6) ”کامیاب نہیں ہوگی“ آخرت میں یا دنیا میں بھی کیونکہ حکومت عورت کا میدان نہیں۔ وہ اس میں مردوں سے مات کھا جاتی ہے۔ تاریخ ملاخطہ فرمائیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک فرمان کی بدولت بچا لیا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ جب (شاہ ایران) کسریٰ مر گیا تو آپ نے پوچھا: ”ان لوگوں (ایرانیوں) نے کسے جانشین بنایا ہے۔“ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو آپ نے فرمایا: ”وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جنہوں نے اپنی حکومت ایک عورت کے سپرد کردی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عورت کو قاضی اور جج بنانا اور اس سے فیصلے کرانا درست نہیں، شرعاً یہ ممنوع ہے۔ (2) عورت کا دائرہ کار مرد کے دائرہ کار سے مختلف ہے۔ عورت کے ذمے گھریلو امور کی نگرانی ہے جب کہ بیرونی امور، مثلاً: کاروبار، ملازمت، حکومت و قضاء وغیرہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ پھر جن معاملات میں مرد و عورت کا اختلاط ہوتا ہے، ان میں عورت ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی۔ اسی لیے عورت کا امام نہیں بنایا جا سکتا، خواہ وہ صاحب علم و فضل ہی ہو۔ قضاء اور امارت میں تو عموماً واسطہ ہی مردوں سے پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ گھریلو معاملہ نہیں، لہٰذا عورت کے لیے قضاء و امارت جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں کسی عورت کو کسی ملکی منصب پر مقرر نہیں کیا گیا اگرچہ اس دور میں بلند مرتبہ خواتین کی کمی نہیں تھی کیونکہ وہ پردے میں رہنے کی پابند ہیں۔ بعد والے ادوار میں بھی اس بات پر ہی عمل جاری رہا۔ اور اہل علم کا بھی اس بات پر اجماع ہے۔ (3) ”بچا لیا“ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ حضرت عائشہ عنہا کی طرف ہے۔ جب وہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں مکہ سے بصرہ تشریف لائی تھیں۔ ان کے ساتھ بڑے بڑے صحابہ تھے۔ راستے میں لوگ ملتے گئے حتیٰ کہ لشکر عظیم بن گیا کیونکہ ان کا مطالبہ صحیح تھا، اس لیے حضرت ابوبکرہ ؓ نے بھی ان کا ساتھ دینے کا ارادہ فرمایا مگر جب دیکھا کہ لشکر کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہے تو مندرجہ بالا فرمان رسول کے پیش نظر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ (4) اگرچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ تو حکومت کے خواہاں تھیں، نہ کوئی عہدہ طلب کر رہی تھیں صرف قصاص کا مطالبہ کر رہی تھیں اور یہ مطالبہ ہر مسلمان کر سکتا تھا مگر لشکر کی قیادت کی صورت میں یہ بات مناسب نہیں تھی۔ اس پر وہ خود بھی بعد میں اظہار تأسف کرتی رہیں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، لہٰذا کوئی اعتراض نہ رہا۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا (5) ”اس کی بیٹی کو“ درمیان میں کسریٰ پرویز کا بیٹا بھی بادشاہ رہا مگر وہ صرف چھ مہینے کے لیے، اس لیے اس کا شمار نہیں کیا گیا۔ (6) ”کامیاب نہیں ہوگی“ آخرت میں یا دنیا میں بھی کیونکہ حکومت عورت کا میدان نہیں۔ وہ اس میں مردوں سے مات کھا جاتی ہے۔ تاریخ ملاخطہ فرمائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی وجہ سے روکے رکھا۱؎ جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، جب کسریٰ ہلاک ہوا تو آپ نے فرمایا: ”انہوں نے کسے جانشین بنایا؟“ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے کسی عورت کو حکومت کے اختیارات دے دیے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ سے جب جنگ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب محفوظ رکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Bakrah said: "Allah protected me with something that I heard from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). When Chosroes died, he said: 'Whom have they appointed as his successor?' They said: 'His daughter.' He said: 'No people will ever prosper who entrust their leadership to a woman.