باب: مشابہت اور قیاس کے ساتھ فیصلہ کرنا اور ابن عباس کی حدیث میں (راویوں کا) ولید بن مسلم پر اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Passing Judgment on the Basis of a Comparison or Similarities, and Mentioning the Differences Reported From Al-Walid Bin Muslim In The Hadith Of Ibn 'Abbas)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5389.
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نحر کے دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آپ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر فریضۂ حج، میرے والد پر اس وقت (فرض) ہوا جبکہ وہ بہت بوڑھے ہیں۔ (سواری پر) سوار نہیں ہوسکتے الا یہ کہ انہیں لٹا دیا جائے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں تو اس کی طرف سے حج کر، کیونکہ اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تو اسے ادا کرتی۔“
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ (2) یاد رہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعی عذر آڑے آ رہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ (3) یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہ ﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔ (5) عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ (6) یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔ (7) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔ (8) ”اگر اس کے ذمے قرض ہوتا“ یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا مسئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاریؒ نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: ”جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ“ ورنہ بہت سے مسائل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خود ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ (9) یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نحر کے دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آپ کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر فریضۂ حج، میرے والد پر اس وقت (فرض) ہوا جبکہ وہ بہت بوڑھے ہیں۔ (سواری پر) سوار نہیں ہوسکتے الا یہ کہ انہیں لٹا دیا جائے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں تو اس کی طرف سے حج کر، کیونکہ اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تو اسے ادا کرتی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ (2) یاد رہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعی عذر آڑے آ رہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ (3) یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہ ﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔ (5) عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ (6) یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔ (7) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔ (8) ”اگر اس کے ذمے قرض ہوتا“ یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا مسئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاریؒ نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: ”جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ“ ورنہ بہت سے مسائل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خود ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ (9) یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فضل بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہرعدالت میں «اشباہ و نظائر» کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Fadl bin 'Abbas that: He was riding behind the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) on the morning of the Day of Sacrifice, when a woman from Khath'am came to him and said: "O Messenger of Allah, the command of Allah, the Mighty and Sublime, to His slaves to perform Hajj has come while my father is an old man and cannot ride unless he is tied crossways on a mount; can I perform Hajj on his behalf? He said: "Yes, perform Hajj on his behalf, for if he owed a debt you would pay it off for him.