باب: حاکم غیرموجود شخص کےبارےمیں فیصلہ کرسکتاہے جب وہ اسے پہچانتاہو
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: The Judge Passing a Judgment on Someone in Absentia, if he Knows Who he is)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5420.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اورکہا: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان کنجوس آدمی ہے۔ وہ نہ تو مجھے کافی اخراجات دیتا ہے اور نہ میرے بچوں کے لیے۔ توکیا میں اس کے مال میں سے اس کے علم کےبغیر لےسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تواتنا لے سکتی ہے جو تجھےاورتیرے بچوں کومناسب اندازمیں کفایت کرے۔“
تشریح:
(1) عنوان کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کی بابت حاکم جانتا ہو کہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔ (2) کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاً جائز ہے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے ان کی تعداد چھ بیان کی ہے۔ وہ فرماتےہیں: شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یا مردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتبدیل کرنے یا کرانے کے لیے کسی کی مدد و استعانت کی ضرورت ہو یا کسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جو ازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتا ہو معاملے کی توضیح کرنا جائز ہے اس وقت بھی مباح ہے۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیا ہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے۔ کسی ظالم کے ظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سے باخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کے پیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتا ہے لہٰذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کو اگلے اہل خانہ کی بابت مشورہ دینا اور ان کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکا ارتکاب کرتا ہو یا پکا بدعتی ہو یا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یا نام سے معروف ہوجوظاہراً غیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمیٰ (اندھا) احول (بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہے ورنہ حرام ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) قاضی اورحاکم کے لیے باہم جھگڑنے والوں کا درست فیصلہ کرنے کے لیے فریق مخالف سے دوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کے لیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی اوربچوں کا خرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدر واجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کا لحاظ کیا جائے۔ (6) مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حیثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے ۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اورکہا: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان کنجوس آدمی ہے۔ وہ نہ تو مجھے کافی اخراجات دیتا ہے اور نہ میرے بچوں کے لیے۔ توکیا میں اس کے مال میں سے اس کے علم کےبغیر لےسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تواتنا لے سکتی ہے جو تجھےاورتیرے بچوں کومناسب اندازمیں کفایت کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عنوان کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کی بابت حاکم جانتا ہو کہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔ (2) کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاً جائز ہے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے ان کی تعداد چھ بیان کی ہے۔ وہ فرماتےہیں: شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یا مردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتبدیل کرنے یا کرانے کے لیے کسی کی مدد و استعانت کی ضرورت ہو یا کسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جو ازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتا ہو معاملے کی توضیح کرنا جائز ہے اس وقت بھی مباح ہے۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیا ہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے۔ کسی ظالم کے ظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سے باخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کے پیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتا ہے لہٰذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کو اگلے اہل خانہ کی بابت مشورہ دینا اور ان کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکا ارتکاب کرتا ہو یا پکا بدعتی ہو یا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یا نام سے معروف ہوجوظاہراً غیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمیٰ (اندھا) احول (بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہے ورنہ حرام ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) قاضی اورحاکم کے لیے باہم جھگڑنے والوں کا درست فیصلہ کرنے کے لیے فریق مخالف سے دوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کے لیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی اوربچوں کا خرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدر واجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کا لحاظ کیا جائے۔ (6) مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حیثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے ۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ہند ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پر اس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے؟ آپ نے فرمایا: ”بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس غائب اور غیر موجود کو پہچانتا ہو، اور مدعی کی صداقت اور مدعی علیہ کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہو جیسا کہ ہند اور ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے معاملہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے، ہر مدعی علیہ کے بارے میں اس طرح فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عام حالات میں مدعی کی گواہی یا قسم اور مدعا علیہ کے بیان سننے کی ضرورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: "Hind came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said : 'O Messenger of Allah, Abu Sufyan is a stingy man who does not spend enough on my child and I. Can I take from his wealth without him realizing?' He said: 'Take what is sufficient for you and your child on a reasonable basis.