Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: How the Judge is to Ask People to Swear for an Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5426.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے پر تشریف لائے اور فرمایا: ”کیسے بیٹھے ہو؟“ انھوں نے کہا کہ ہم بیٹھےاللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہیں اور اس کی تعریف کررہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی رہنمائی فرمائی اور آپ کو بھیج کرہم پرعظیم احسان فرمایا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ کی قسم! تم صرف اسی لیے بیٹھے ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ اللہ کی قسم! ہم صرف اسی لیے بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تم سے کسی شک و الزام وغیرہ کی بنا پر قسم نہیں لی بلکہ بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ تمھاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر فرما رہا ہے(کہ یہ میری مخلوق ہے)۔ۯ“
تشریح:
(1) امام نسائی ؒ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد قسم اٹھوانے کی کیفیت بیان کرنا ہے کہ قسم کن الفاظ سے اٹھوائی جائے گی۔ (2) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور عظمت و بزرگی بیان کرنے کے لیے مسجد انتہائی موزوں ومناسب جگہ ہوتی ہے۔ وہاں نہ تو خرید و فروخت جائز ہے اور نہ دیگر عام گپ شپ لگانا ہی درست ہے بلکہ وہاں اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید ہی کی جانی مشروع ہے۔ انسان کو وہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد کر کے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (3) مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن کر رہے‘ ایک تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور دوسرا اس لیے کہ اسے محمد رسول اللہ ﷺ کا امتی بنایا۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی عظمت اور اس سے بڑھ کر فخر کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ﴾(اٰل عمران: ۳ :۱۱۰) اور ﴿جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾(البقرة: ۲ :۱۴۳) کا مصداق قرار پائے ۔ (4) درس و تدریس اور وعظ وذکر کی مجالس یقینًا نہایت پسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر فخر کرتا ہے بدعی اور شرکیہ مجالس اس کے برعکس اللہ کی ناراضی کا باعث ہوں گی۔ (5) آپ کا مقصود یہ ہے کہ میں نے تمھارے فعل کی اہمیت کے پیش نظر تم سے قسم لی ہے‘ نہ کہ شک و شبہ کی بنا پر۔ (6) حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم لینی چاہیے اور صرف اتنا کافی ہے۔ بعض لوگ قسم کے الفاظ میں تغلیظ کے قائل ہیں‘ یعنی کہ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اوصاف بھی ملائے جائیں تا کہ قسم کی عظمت جاگزین ہو جائے اور قسم کھانے والا جھوٹی قسم نہ کھائے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بھی وعظ کے قائم مقام ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے پر تشریف لائے اور فرمایا: ”کیسے بیٹھے ہو؟“ انھوں نے کہا کہ ہم بیٹھےاللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہیں اور اس کی تعریف کررہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی رہنمائی فرمائی اور آپ کو بھیج کرہم پرعظیم احسان فرمایا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ کی قسم! تم صرف اسی لیے بیٹھے ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ اللہ کی قسم! ہم صرف اسی لیے بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تم سے کسی شک و الزام وغیرہ کی بنا پر قسم نہیں لی بلکہ بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ تمھاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر فرما رہا ہے(کہ یہ میری مخلوق ہے)۔ۯ“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی ؒ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد قسم اٹھوانے کی کیفیت بیان کرنا ہے کہ قسم کن الفاظ سے اٹھوائی جائے گی۔ (2) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور عظمت و بزرگی بیان کرنے کے لیے مسجد انتہائی موزوں ومناسب جگہ ہوتی ہے۔ وہاں نہ تو خرید و فروخت جائز ہے اور نہ دیگر عام گپ شپ لگانا ہی درست ہے بلکہ وہاں اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید ہی کی جانی مشروع ہے۔ انسان کو وہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد کر کے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (3) مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن کر رہے‘ ایک تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور دوسرا اس لیے کہ اسے محمد رسول اللہ ﷺ کا امتی بنایا۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی عظمت اور اس سے بڑھ کر فخر کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ﴾(اٰل عمران: ۳ :۱۱۰) اور ﴿جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾(البقرة: ۲ :۱۴۳) کا مصداق قرار پائے ۔ (4) درس و تدریس اور وعظ وذکر کی مجالس یقینًا نہایت پسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر فخر کرتا ہے بدعی اور شرکیہ مجالس اس کے برعکس اللہ کی ناراضی کا باعث ہوں گی۔ (5) آپ کا مقصود یہ ہے کہ میں نے تمھارے فعل کی اہمیت کے پیش نظر تم سے قسم لی ہے‘ نہ کہ شک و شبہ کی بنا پر۔ (6) حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم لینی چاہیے اور صرف اتنا کافی ہے۔ بعض لوگ قسم کے الفاظ میں تغلیظ کے قائل ہیں‘ یعنی کہ ساتھ اللہ تعالیٰ کے اوصاف بھی ملائے جائیں تا کہ قسم کی عظمت جاگزین ہو جائے اور قسم کھانے والا جھوٹی قسم نہ کھائے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بھی وعظ کے قائم مقام ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ معاویہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا: ”کیوں بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ۲؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: اللہ کی قسم! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا، بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر تمہاری وجہ سے فخر کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی جب کسی معاملہ میں قاضی کو قسم لینے کی ضرورت ہو تو کن الفاظ کے ساتھ قسم لے۔ ۲؎ : اسی لفظ میں باب سے مناسبت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لفظ «واللہ» سے قسم کھایا یا لیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said: "Mu'awiyah, (RA) said: 'The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) went out to a circle - meaning, of his Companions - and said: 'What are you doing? They said: 'We have come together to pray to Allah and praise Him for guiding us to His religion, and blessing us with you.' He said: 'I ask you, by Allah, is that the only reason?' They said: 'By Allah, we have not come together for any other reason.' He said: 'I am not asking you to swear to an oath because of any suspicion; rather Jibril came to me and told me that Allah, the Mighty and Sublime, is boasting of you to the angels.