Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: How the Judge is to Ask People to Swear for an Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5427.
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک آدمی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نےفرمایا: اوے! تو چوری کرتا ہے! اس نے کہا نہیں۔ قسم اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ (کی قسم) پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھ (کی دیکھی ہوئی چیز) کو جھٹلاتا ہوں۔“
تشریح:
(1) ”جھٹلاتا ہوں“ مقصد یہ ہے جب کسی سے قسم لی جائے تو اس کی قسم مان لینی چاہیے۔ اپنی بات پر نہیں اڑنا چاہیے۔ کوئی جھوٹی کھائے گا تو خود بھگتے گا۔ مذکورہ واقعہ میں ممکن ہے وہ اپنی ہی چیز اٹھا رہا ہو یا دوسرے کی چیز اس کی اجازت سے اٹھا رہا ہو۔ یا صرف چیز پکڑ کر دیکھنا مقصد ہو نہ کہ اٹھا کر لے جانا وغیرہ۔ ایسے كئ احتمالات ہوسکتے ہیں۔ گویا ظاہر دیکھنے میں چوری کی صورت تھی۔ قسم سے حقیقت واضح ہو گئ۔ (یہ سب کچھ تب ہے اگر وہ اپنی قسم میں سچا تھا)۔ چور نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا‘ اس لیے سیدناعیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا سمجھا اور اپنی آنکھ کو جھوٹا قراردیا۔ واللہ أعلم۔ (2) ہر جگہ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ابن مریم کہنا دلیل ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تا کہ لوگوں کے لیے اپنے صدق پر معجزہ بنیں۔ (3) حدیث میں قسم مؤ کد و مغلظ ہے۔ گویا ایسی قسم بھی لی جا سکتی ہے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک آدمی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نےفرمایا: اوے! تو چوری کرتا ہے! اس نے کہا نہیں۔ قسم اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ (کی قسم) پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھ (کی دیکھی ہوئی چیز) کو جھٹلاتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”جھٹلاتا ہوں“ مقصد یہ ہے جب کسی سے قسم لی جائے تو اس کی قسم مان لینی چاہیے۔ اپنی بات پر نہیں اڑنا چاہیے۔ کوئی جھوٹی کھائے گا تو خود بھگتے گا۔ مذکورہ واقعہ میں ممکن ہے وہ اپنی ہی چیز اٹھا رہا ہو یا دوسرے کی چیز اس کی اجازت سے اٹھا رہا ہو۔ یا صرف چیز پکڑ کر دیکھنا مقصد ہو نہ کہ اٹھا کر لے جانا وغیرہ۔ ایسے كئ احتمالات ہوسکتے ہیں۔ گویا ظاہر دیکھنے میں چوری کی صورت تھی۔ قسم سے حقیقت واضح ہو گئ۔ (یہ سب کچھ تب ہے اگر وہ اپنی قسم میں سچا تھا)۔ چور نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا‘ اس لیے سیدناعیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا سمجھا اور اپنی آنکھ کو جھوٹا قراردیا۔ واللہ أعلم۔ (2) ہر جگہ عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ ابن مریم کہنا دلیل ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تا کہ لوگوں کے لیے اپنے صدق پر معجزہ بنیں۔ (3) حدیث میں قسم مؤ کد و مغلظ ہے۔ گویا ایسی قسم بھی لی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم ؑ نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا: کیا تم نے چوری کی؟ وہ بولا: نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۱؎، عیسیٰ ؑ نے کہا: میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث میں یہی قسم کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ بھی کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا لیا کرتے تھے، دونوں حدیثوں میں مذکور دونوں الفاظ کے علاوہ بھی کچھ الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا لیا کرتے تھے جیسے «لاومُصَرِّفِ القُلوبِ»، «لا و مُقلِّبَ القلوبِ» وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Isa bin Mariam ؑ saw a man stealing, and said to him: Are you stealing? He said: No, by Allah besides Whom there is no other God! 'Isa ؑ said: I believe in Allah and I disbelieve my eyes.