باب: ان سورتوں کا بیان جن کے ذریعے سے پناہ پکڑی جاتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: What was Narrated Concerning Al-Mu'awwidhatain (Two Surahs Seeking Refuge with Allah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5436.
حضرت عقبہ بن عامر نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑکر آگے آگے چل رہا تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”عقبہ! میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جو کبھی پڑھی گئی ہوں؟“پھر آپ نے مجھے سورۂ ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سکھائیں۔ آپ نے محسوس فرمایا کہ میں یہ سورتیں سیکھ کر زیادہ خوش نہیں ہوا‘ لہٰذا جب آپ صبح کی نماز کے لیے اترے تو یہ دونوں سورتیں صبح کی نماز میں لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے پڑھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمابا: ”اے عقبہ! تیرا کیا خیال ہے؟“
تشریح:
”کیا خیال ہے؟“ یعنی اب تجھے ان سورتوں کی اہمیت محسوس ہوئی؟
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه ابن خزيمة والحاكم) .
اسناده: حدثنا أحمد بن عمرو بن السَرْح: أخبرنا ابن وهب: أخبرني معاوية
عن للعلاء بن الحارث عن القاسم مولى معاوية عن عقبة بن عامر.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير القاسم- وهو أبو عبد الرحمن
صاحب أبي أمامة-، وهو صدوق، فالإسناد حسن؛ لولا أن العلاء بن الحارث كان
اختلط، لكنه قد توبع.
والحديث أخرجه النسائي (2/313) ... بإسناد المصنف.
(5/203)
وأخرجه أحمد (4/149- 150 و 153) ، وعنه الحاكم (1/240) ، وابن خزيمة
(535) من طرق أخرى عن معاوية بن صالح... به.
وتابعه ابن جابر عن القاسم أبي عبد الرحمن ... به: أخرجه الطحاوي في
المشكل (1/35) ، وأحمد (4/144) .
وتابعه أيضا علي بن يزيد عن القاسم... به نحوه؛ وزاد فيه: (قل هو الله
أحد) .
أخرجه أحمد (4/148) ؛ وعلي بن يزيد: هو الألهاني، ضعيف؛ لكنه لم
يتفرد بها، فقد أخرجه النسائي (2/312) من طريق عبد الله بن سليمان الأسلمي
عن معاذ بن عبد الله بن خبَثبٍ عن عقبة... به نحوه؛ وفيه: قال:
(قل هو الله أحد) و (قل أعوذ برب الفلق) و (قل أعوذ برب
الناس) ... لم يتعوذ الناس بمثلهن- أو لا يتَعوَذ بمثلهن، وفي رواية: ما تعوذ
بمثلهن أحد- .
وهو حسن بما قبله؛ بل هو صحيح، فقد وجدت له طريقاً عن عقبة بن
عامر... نحوه: أخرجه أحمد (4/158- 159) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5450
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5451
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5438
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت عقبہ بن عامر نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑکر آگے آگے چل رہا تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”عقبہ! میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جو کبھی پڑھی گئی ہوں؟“پھر آپ نے مجھے سورۂ ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سکھائیں۔ آپ نے محسوس فرمایا کہ میں یہ سورتیں سیکھ کر زیادہ خوش نہیں ہوا‘ لہٰذا جب آپ صبح کی نماز کے لیے اترے تو یہ دونوں سورتیں صبح کی نماز میں لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے پڑھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمابا: ”اے عقبہ! تیرا کیا خیال ہے؟“
حدیث حاشیہ:
”کیا خیال ہے؟“ یعنی اب تجھے ان سورتوں کی اہمیت محسوس ہوئی؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کی سواری کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل رہا تھا، تو آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ بتاؤں جو مجھے پڑھائی گئی ہیں؟“ پھر آپ نے مجھے «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» سکھائی، لیکن آپ نے مجھے ان دونوں پر خوش ہوتے نہیں دیکھا، پھر جب آپ فجر کے لیے مسجد آتے تو انہیں دونوں سورتوں سے لوگوں کو فجر پڑھائی، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”عقبہ! تم نے (ان کو) کیسا پایا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Uqbah bin 'Amir said: "I was leading the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) (on his mount) on a journey, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'O 'Uqbah, shall I not teach you the best two Surahs that can be recited?' And he taught me: 'Say: I seek refuge with (Allah) the Lord of the daybreak.' And 'Say: I seek refuge with (Allah) the Lord of mankind...' He thought that I did not seem too overjoyed with them, so when he stopped to pray Subh, he recited them when he led the people in the Subh prayer. When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) finished praying, he turned to me and said: 'O 'Uqbah, what do you think?