باب: اس دل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرناجو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge With Allah From a Heart That Does Not Feel Humble)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5442.
حضرت عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے۔ کہ نبئ اکرم ﷺ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے: ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘ ایسے دل سے جو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے‘ ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو۔
تشریح:
(1) حدیث میں مذکورہ ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ (2) ظاہری معنیٰ مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میرے علم کو مفید بنا۔ دل کو عاجزی اور خشوع والا بنا۔ میری دعائیں قبول فرما اور نفس کو قناعت پسند بنا۔ (3) آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے۔ (4) علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلا فائدہ عالم کو ہونا چاہیے‘ پھر دوسرں کو‘ مثلا: تبلیغ و تعلیم وغیرہ۔ (5) دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہٖ بات کا پورا ہو جانا کیوں کہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں۔ (6) ”نفس کے سیر نہ ہونے“ سے مراد نفس کا حریص اور لالچی ہونا ہے‘ البتہ علم اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5456
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5457
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5444
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے۔ کہ نبئ اکرم ﷺ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے: ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘ ایسے دل سے جو اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے‘ ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکورہ ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ (2) ظاہری معنیٰ مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میرے علم کو مفید بنا۔ دل کو عاجزی اور خشوع والا بنا۔ میری دعائیں قبول فرما اور نفس کو قناعت پسند بنا۔ (3) آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے۔ (4) علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلا فائدہ عالم کو ہونا چاہیے‘ پھر دوسرں کو‘ مثلا: تبلیغ و تعلیم وغیرہ۔ (5) دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہٖ بات کا پورا ہو جانا کیوں کہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں۔ (6) ”نفس کے سیر نہ ہونے“ سے مراد نفس کا حریص اور لالچی ہونا ہے‘ البتہ علم اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ چار باتوں سے پناہ مانگتے تھے: ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو، ایسے دل سے جس میں اللہ کا ڈر نہ ہو، ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو آسودہ نہ ہو۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ایک امتی ان چاروں چیزوں سے اس طرح پناہ مانگے «اللَّهمَّ إنِّي أعوذُ بِكَ منعِلمٍلاينفعُ ومن قلبٍ لا يخشعُ و من دعاءٍ لا يسمَعُ و من نفسٍ لا تشبعُ» اسی طرح آگے جہاں بھی یہ آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے وہاں واحد متکلم کا صیغہ بنا لے، جیسے اگلی حدیث میں «أعوذُ منالجُبنِ»۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin Amr that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to seek refuge (with Allah) from four things: From knowledge that is of no benefit, from a heart that does not feel humble, from a supplication that is not heard, and a soul that is never satisfied.