باب: کان اور آنکھ کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from the Evil of One's Hearing and Seeing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5444.
حضرت شکل بن حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا کہ میں نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے کلمات سکھا دیجیے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کروں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”تو یہ کلمات کہہ: اے اللہ! میں اپنے کانوں‘ آنکھوں‘ زبان‘ دل اور منی کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“میں نے یہ کلمات یاد کر لیے ۔ سعد(ابن اوس راوی حدیث) نے کہا کہ منی سے مراد نطفہ ہے (اس کی برائی یہ ہے کہ اسے حرام میں بہائے)۔
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مشروع اور پسندیدہ عمل ہے‘ لہٰذا ہر مسلمان مرد عورت کو اس مسنون دعا کا التزام کرنا چاہیے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نبئ اکرم ﷺ سے ایسے سوال پوچھنے کا اہتمام بھی واضح ہوتا ہے جن سے انھیں اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں فائدہ ہوتا اور ان سے ان کی دنیا و آخرت سنورتی۔ (3) قرآن حدیث میں مذکورہ دعاؤں سے اصل مطلوب و مقصود یہ ہے کہ بندہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے رب کریم کی طرف متوجہ رہے‘ اس سے جڑا رہے‘ اس کا در نہ چھوڑے اور اسی کی بارگاہ میں اپنی ساری عاجزیاں پیش کرے‘ نیز تمام ظاہری وباطنی (اندرونی وبیرونی) تکالیف و پریشانیوں سے بچنے کے لیے حفاظت میں رہنے کی کوشش کرتا رہے۔ ان سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد ہی سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے۔ (4) مذکورہ چیزوں کی شر سے مراد ان کا نا جائز اور بے محل استعمال ہے اور اللہ سے پناہ طلب کرنے کا مقصد ان کی حفاظت ہے کہ یہ غلط استعمال نہ ہوں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیۓ‘ (سنن ابو داؤد (مترجم )‘فائدہ حدیث:۱۵۵۱۔ مطبوعہ دارالسلام)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5458
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5459
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5446
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت شکل بن حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا کہ میں نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے کلمات سکھا دیجیے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کیا کروں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”تو یہ کلمات کہہ: اے اللہ! میں اپنے کانوں‘ آنکھوں‘ زبان‘ دل اور منی کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“میں نے یہ کلمات یاد کر لیے ۔ سعد(ابن اوس راوی حدیث) نے کہا کہ منی سے مراد نطفہ ہے (اس کی برائی یہ ہے کہ اسے حرام میں بہائے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مشروع اور پسندیدہ عمل ہے‘ لہٰذا ہر مسلمان مرد عورت کو اس مسنون دعا کا التزام کرنا چاہیے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نبئ اکرم ﷺ سے ایسے سوال پوچھنے کا اہتمام بھی واضح ہوتا ہے جن سے انھیں اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں فائدہ ہوتا اور ان سے ان کی دنیا و آخرت سنورتی۔ (3) قرآن حدیث میں مذکورہ دعاؤں سے اصل مطلوب و مقصود یہ ہے کہ بندہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے رب کریم کی طرف متوجہ رہے‘ اس سے جڑا رہے‘ اس کا در نہ چھوڑے اور اسی کی بارگاہ میں اپنی ساری عاجزیاں پیش کرے‘ نیز تمام ظاہری وباطنی (اندرونی وبیرونی) تکالیف و پریشانیوں سے بچنے کے لیے حفاظت میں رہنے کی کوشش کرتا رہے۔ ان سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد ہی سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے۔ (4) مذکورہ چیزوں کی شر سے مراد ان کا نا جائز اور بے محل استعمال ہے اور اللہ سے پناہ طلب کرنے کا مقصد ان کی حفاظت ہے کہ یہ غلط استعمال نہ ہوں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیۓ‘ (سنن ابو داؤد (مترجم )‘فائدہ حدیث:۱۵۵۱۔ مطبوعہ دارالسلام)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شکل بن حمید ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے کوئی ایسا تعوذ (شر و فساد سے بھاگ کر اللہ کی پناہ میں آنے کی دعا) بتائیے، جس کے ذریعہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوں۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: کہو: ”«أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَشَرِّ بَصَرِي وَشَرِّ لِسَانِي وَشَرِّ قَلْبِي وَشَرِّ مَنِيِّي» ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے کان کی برائی سے، اپنی آنکھ کی برائی سے، اپنی زبان کی برائی سے، اپنے دل کی برائی سے، اپنی منی کی برائی سے“، شکل کہتے ہیں: یہاں تک کہ میں نے اسے یاد کر لیا۔ سعد کہتے ہیں: منی سے مراد نطفہ (پانی) ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Shakal bin Humaid said: "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'O Prophet of Allah, teach me words by means of which I may seek refuge with Allah.' He took me by the hand and said: 'Say: A'udhu bika min sharri sam'I, wa sharri basari, wa sharri lisani, wa sharri qalbi, wa sharri mani (I seek refuge with You from the evil of my hearing, the evil of my seeing, the evil of my tongue, the evil of my heart, and the evil of my sperm).