باب: مخالفت و دشمنی ‘ نفاق اور بدخلقی سے پناہ مانگنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from Opposing the Truth, Hypocrisy and Bad Manners)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5470.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبئ اکرم ﷺ یہ دعائیں فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘ ایسے دل سے جس میں (اللہ تعالیٰ کا) ڈر نہ ہو‘ ایسی دعا سے جو سنی نہ جائے (قبول نہ کی جائے۔) اور ایسے نفس سے سیر نہ ہو۔“ پھر فرماتے: ”اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔“
تشریح:
یہ حدیث صراحتاً باب سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ آئندہ حدیث باب کے مطابق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث کسی ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5484
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5485
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5472
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبئ اکرم ﷺ یہ دعائیں فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘ ایسے دل سے جس میں (اللہ تعالیٰ کا) ڈر نہ ہو‘ ایسی دعا سے جو سنی نہ جائے (قبول نہ کی جائے۔) اور ایسے نفس سے سیر نہ ہو۔“ پھر فرماتے: ”اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صراحتاً باب سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ آئندہ حدیث باب کے مطابق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث کسی ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعائیں مانگتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَقَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَدُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ وَنَفْسٍ لَا تَشْبَعُ» ”اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو مفید اور نفع بخش نہ ہو، ایسے دل سے جس میں (اللہ کا) ڈر نہ ہو، ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیراب نہ ہو“، پھر فرماتے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ» ” اے اللہ! میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق بظاہر نظر نہیں آتا، شاید نسّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہو گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to say these supplications: "Allahumma inni a'udhu bika min 'ilmin la yanfa'u, wa qalbin la yakhsha'u, wa du'a'in la yasma'u, wa nafsin la tashba'u. (O Allah, I seek refuge with You from knowledge that is of no benefit, a heart that is not humble, a supplication that is not heard and a soul that is not satisfied.)" Then he would say: 'Allahumma inni a'udhu bika min ha'ula'il-arba' (O Allah, I seek refuge with You from these four).