Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from Madness)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5493.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم ﷺ یوں بھی دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں پا گل پن‘ کوڑھ‘ پھلبہری اور دوسری بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
تشریح:
(1) بعض بیماریاں دیرپا ہوتی ہیں اور ان کے اثرات ختم نہیں ہوتے۔ موت تک کے لیے لازمہ بن جاتی ہیں۔ لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جسم عیب دار بن جاتا ہے یا وہ انسانی عقل کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں کہ انسان جانورں جیسے کام کرنے لگ جاتا ہے۔ ایسی بیماریوں کو بری بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ بیماریوں کے علاوہ دور حاضر کی بیماریاں فالج‘ کینسر‘ ایڈز‘ پولیو وغیرہ ایسی ہی بیماریاں ہیں۔ أعاذنا اللہ منھا۔ جبکہ بعض بیماریاں عارضی ہوتی ہیں‘ برے اثرات نہیں چھوڑتیں بلکہ بسا اوقات جسم کی اصلاح کرتی ہیں‘ مثلاً: معمولی بخار‘ زکام اور سر درد وغیرہ۔ ایسی بیماریاں انسان کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں اور بڑی بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔ (2) یہ روایت دیگر محققین کے نزدیک صحیح ہے اور انھی کی بات راجح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة‘مسند الإمام أحمد:۳۰۹/۲۰)
الحکم التفصیلی:
قلت : إسناده عند الحاكم على شرط البخاري فقط فإن فيه آدم بن أبي أياس ولم يخرج له مسلم وفي إسناد ابن حبان كيسان وهو أبو عمر القصار وهو ضعيف وثقه ابن حبان ! والحديث رواه الطبراني في " المعجم الصغير " صلى الله عليه وسلم من طريق آدم
لكن لم يقع عنده الإستعاذة من الفقر والكفر . وفي الصحيحين منه " اللهم إني أعوذ بك من العجز والكسل " . وفي النسائي ( 1 / / 318 ) و " المسند " ( 3 / 192 ) الشطر الأخير منه : " اللهم إني أعوذ بك من البرص والجنون . . . " . وأما حديث أبي سعيد فيرويه سالم بن غيلان عن دراج أبي السمح عن أبي الهيثم عنه عن رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) أنه كان يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الكفر والفقر فقال رجل : ويعدلان ؟ قال : نعم ) . أخرجه النسائي ( 2 / 317 ) وابن حبان ( 2438 ) . ثم أخرجاه وكذا الحاكم ( 1 / 532 ) من طريق حيوة من شريح عن دراج به إلا أنه قال : ( الدين ا بدل " الفقر . وقال الحاكم : ( صحيح الإسناد " . ووافقه الذهبي . قلت : وفي ذلك نظر فإن دراجا قال في ( التقريب ) : ( صدوق في حديثه عن أبي الهيثم ضعيف ) . وهذا من حديثه عنه . وأما حديث عبد الرحمن بن أبي بكر فقال : سمعت النبي ( صلى الله عليه وسلم ) يقول : " أعوذ بوجهك الكريم وباسمك الكريم من الكفر والفقر " . قال الهيثمي في " المجمع " ( 10 / 143 ) : " رواه الطبراني وفيه من لم أعرفهم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5507
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5508
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5495
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم ﷺ یوں بھی دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں پا گل پن‘ کوڑھ‘ پھلبہری اور دوسری بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بعض بیماریاں دیرپا ہوتی ہیں اور ان کے اثرات ختم نہیں ہوتے۔ موت تک کے لیے لازمہ بن جاتی ہیں۔ لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جسم عیب دار بن جاتا ہے یا وہ انسانی عقل کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں کہ انسان جانورں جیسے کام کرنے لگ جاتا ہے۔ ایسی بیماریوں کو بری بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ بیماریوں کے علاوہ دور حاضر کی بیماریاں فالج‘ کینسر‘ ایڈز‘ پولیو وغیرہ ایسی ہی بیماریاں ہیں۔ أعاذنا اللہ منھا۔ جبکہ بعض بیماریاں عارضی ہوتی ہیں‘ برے اثرات نہیں چھوڑتیں بلکہ بسا اوقات جسم کی اصلاح کرتی ہیں‘ مثلاً: معمولی بخار‘ زکام اور سر درد وغیرہ۔ ایسی بیماریاں انسان کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں اور بڑی بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔ (2) یہ روایت دیگر محققین کے نزدیک صحیح ہے اور انھی کی بات راجح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة‘مسند الإمام أحمد:۳۰۹/۲۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کہتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ»”اے اللہ! جنون (پاگل پن)، جذام، برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to say: "Allahumma inni a'udhu bika minal-jununi wal-jadhami, wal-barasi wa sayy'il-asqam (O Allah, I seek refuge in You from possession, leprosy, leukederma and bad sickness (that may lead to visible deformity).