Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from Loss After Plenty)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5498.
حضرت عبداللہ بن سرجس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو یوں دعا فرماتے: ”اےاللہ! میں سفر کی مشکلات واپسی کی غمگینی و پریشانی نفع کے بعد نقصان مظلوم کی بددعا اوراہل ومال میں برا منظر دیکھنےسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
تشریح:
(1) ہر انسان کواپنے اہل وعیال اورمال ومتاع کی ہلاکت وبربادی اوراس کی تباہی وآزمائش سے بچنے کے لیے اللہ عزوجل کے حضور ہر وقت دست بدعا رہنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مظلوم کی دعا اوربددعا قبول ہوتی ہے اس لیے ہر عقیل وفہیم اورباشعور مسلمان مرد وعورت کومظلوم کی دعا حاصل کرنے اوراس کی بددعا سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے نیزظالم اورمظلوم بن جانے سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سےمعلوم ہواکہ مذکورہ ذکرو دعا کا کرنا اورآغاز سفرمیں التزام کرنا مستحب ہے۔ اس کےمتعلق بہت سی احادیث وارد ہیں۔ بعض اہل علم نےان اذکار کوکتابی صورت میں جمع کیا ہےجیسا کہ امام نوری رحمتہ اللہ علیہ کی ”کتاب الأذکار۔“ (4) ”واپسی کی غمگین“ یعنی میں اپںے مقصد میں ناکام ہوکر مغموم واپس لوٹوں۔ (5) ”نفع کے بعد نقصان“ یہ جامع الفاظ ہیں جن میں ہر نفع نقصان اورخیروشرآ جاتا ہے، مثلاً: ایمان کے بعد کفر، صحت کےبعد بیماری اورغنی کےبعد فقر وغیرہ۔ (6) ”مظلوم کی بددعا“ مقصود یہ ہے کہ میں کسی پرظلم نہ کروں تاکہ مجھے بددعا نہ دے۔ (7) ”اہل ومال میں برا منظر“ یعنی میری عدم موجودگی میں ان کا نقصان نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5512
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5513
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5500
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت عبداللہ بن سرجس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو یوں دعا فرماتے: ”اےاللہ! میں سفر کی مشکلات واپسی کی غمگینی و پریشانی نفع کے بعد نقصان مظلوم کی بددعا اوراہل ومال میں برا منظر دیکھنےسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ہر انسان کواپنے اہل وعیال اورمال ومتاع کی ہلاکت وبربادی اوراس کی تباہی وآزمائش سے بچنے کے لیے اللہ عزوجل کے حضور ہر وقت دست بدعا رہنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مظلوم کی دعا اوربددعا قبول ہوتی ہے اس لیے ہر عقیل وفہیم اورباشعور مسلمان مرد وعورت کومظلوم کی دعا حاصل کرنے اوراس کی بددعا سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے نیزظالم اورمظلوم بن جانے سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سےمعلوم ہواکہ مذکورہ ذکرو دعا کا کرنا اورآغاز سفرمیں التزام کرنا مستحب ہے۔ اس کےمتعلق بہت سی احادیث وارد ہیں۔ بعض اہل علم نےان اذکار کوکتابی صورت میں جمع کیا ہےجیسا کہ امام نوری رحمتہ اللہ علیہ کی ”کتاب الأذکار۔“ (4) ”واپسی کی غمگین“ یعنی میں اپںے مقصد میں ناکام ہوکر مغموم واپس لوٹوں۔ (5) ”نفع کے بعد نقصان“ یہ جامع الفاظ ہیں جن میں ہر نفع نقصان اورخیروشرآ جاتا ہے، مثلاً: ایمان کے بعد کفر، صحت کےبعد بیماری اورغنی کےبعد فقر وغیرہ۔ (6) ”مظلوم کی بددعا“ مقصود یہ ہے کہ میں کسی پرظلم نہ کروں تاکہ مجھے بددعا نہ دے۔ (7) ”اہل ومال میں برا منظر“ یعنی میری عدم موجودگی میں ان کا نقصان نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن سرجس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو کہتے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ»”اے اللہ! میں سفر کی مشقت و دشواری، سفر سے لوٹنے کے وقت کے رنج و غم، خوشحالی کے بعد بدحالی، مظلوم کی بد دعا، گھربار اور مال میں بری صورت حال سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin Sarjis that : When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) traveled, he would say: "Allahumma inni a'udhu bika min wa'tha'is-safari, wa kabatil-munqalabi, wal-hawri ba'dal-kawri, wa da'watil-mazlumi, wa suw'il-munzari fil-ahli wal-mal (O Allah, I seek refuge with You from the hardships of travel and the sorrows of return, from loss after plenty, from the supplication of the one who has been wronged, and seeing some calamity befall my family or wealth).