باب: اپنے برےاعمال کےشرسے اللہ تعالی کی پناہ مانگنا اور(راوئ حدیث ) ہلال پراختلاف کابیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from the Evil of One's Actions, and Mentioning the Differences Reported from Hilal)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5523.
حضرت ہلال بن یساف سے منقول ہے کہ میں نے نبئ اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا، رسول اللہ ﷺ اپںی وفات سے قبل کون سی دعا زیادہ پڑھتے تھے؟انھوں نے فرمایا: یہ دعا زیادہ پڑھتے تھے: ”اے اللہ! میں ان گناہوں کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں جومیں کرچکا ہوں اوران گناہوں کے شر سے بھی جوابھی نہیں کیے۔“
تشریح:
(1) اس قسم کی دعائیں امت کی تعلیم کے لیے ہیں یا اپنی عبودیت کے اظہارکے لیے ورنہ آپ سے گناہوں کا صدورممکن نہیں تھا۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں گناہ سے بچا کر رکھتا ہے۔ (2) گناہوں کے شرسے مراد وہ سزا ہے جوگناہوں کے لیے مقرر کی گئی ہے یعنی میرے گناہ معاف فرما۔ آئندہ گناہوں کے شر سے مراد ان کا صدور بھی ہو سکتا ہے کہ مجھ سے وہ گناہ ہی صادر نہ ہوں کیونکہ تقدیر سے توکوئی واقف نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) ”گناہ“ خواہ وہ فعل ہو یا ترک۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5537
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5538
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5525
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت ہلال بن یساف سے منقول ہے کہ میں نے نبئ اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا، رسول اللہ ﷺ اپںی وفات سے قبل کون سی دعا زیادہ پڑھتے تھے؟انھوں نے فرمایا: یہ دعا زیادہ پڑھتے تھے: ”اے اللہ! میں ان گناہوں کے شرسے تیری پناہ میں آتا ہوں جومیں کرچکا ہوں اوران گناہوں کے شر سے بھی جوابھی نہیں کیے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس قسم کی دعائیں امت کی تعلیم کے لیے ہیں یا اپنی عبودیت کے اظہارکے لیے ورنہ آپ سے گناہوں کا صدورممکن نہیں تھا۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں گناہ سے بچا کر رکھتا ہے۔ (2) گناہوں کے شرسے مراد وہ سزا ہے جوگناہوں کے لیے مقرر کی گئی ہے یعنی میرے گناہ معاف فرما۔ آئندہ گناہوں کے شر سے مراد ان کا صدور بھی ہو سکتا ہے کہ مجھ سے وہ گناہ ہی صادر نہ ہوں کیونکہ تقدیر سے توکوئی واقف نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) ”گناہ“ خواہ وہ فعل ہو یا ترک۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہلال بن یساف بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی موت سے پہلے کون سی دعا مانگا کرتے تھے؟ وہ بولیں: آپ ﷺ اکثر یہ دعا مانگتے تھے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ» ” اے اللہ ! میں اپنے کیے ہوئے کاموں کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور جو کام نہیں کیے ہیں (اور آئندہ کروں گا) ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: چنانچہ عبدہ کی روایت میں «عن ہلال عن عائشة» ہے جب کہ منصور اور حصین کی روایت میں «عن ہلال عن فروة عن عائشة» ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdah bin Abi Lubabah that Ibn Yasaf told him that he asked 'Aishah (RA), the wife of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم): What supplication did the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say the most before he died? She said: "The supplication that he said the most was: 'Allahumma, inni a'udhu bika min sharri ma 'amiltu wa min sharri ma lam a'mal ba'd (O Allah, I seek refuge with You from the evil of what I have done, and from the evil of what I have not done yet).