Sunan-nasai:
The Book of Seeking Refuge with Allah
(Chapter: Seeking Refuge from Being Swallowed up by the Earth)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5529.
حضرت ابن عمر ؓ نےفرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ”اے اللہ! میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں نیچے سے اچانک ہلاک کر دیا جاؤں۔“ یہ حدیث مختصر ہے۔ جبیر نے کہا کہ نیچے سے اچانک ہلاک کردیے جانے سے مراد ہے زمین میں دھنس جانا۔ عبادہ نےکہا: میں نہیں جانتا کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے یا جبیر کا (اپنا) قول ہے۔
تشریح:
(1) ”تیری عظمت“ جس طرح اللہ تعالی کی ذات سے پناہ لی جا سکتی ہے اسی طرح اللہ تعالی کی صفات کی پناہ بھی لی جا سکتی ہے کیونکہ صفات ذات سے الگ نہیں ہوتیں۔ مقصود ایک ہی ہے۔ (2) ”نیچےسے“ یعنی ایسے عذاب سے جو زمین سےآئے۔ اوردھنسایا جانا (خسف) بھی زمینی عذاب ہی سے ہوتا ہے۔ زلزلہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5543
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5544
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5531
تمہید کتاب
اس سے پہلی کتاب’’آداب الاقضاۃ ‘‘تھی‘یہ‘‘کتاب الاستعاذہ ‘‘ہے ۔شائد ان دونوں کے درمیان مناسبت یہ بنتی ہو کہ قاضی اور حاکم بن کر لوگوں کے مابین اختلافات کے فیصلے کرنا انتہا ئی حساس اور خطرناک معاملہ ہے ۔قاضی کی معمولی سی غلطی یا غفلت سے معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے ۔اس کو ٹھوکر لگنے سے ایک کا حق دوسرے کے پاس چلا جاتا ہے اور اسی طرح ایک حلال چیز قاضی اور جج کے فیصلے سے اس کے اصل مالک کے لیے حرام ٹھہرتی ہے ‘اس لیے ایسے موقع پر انسان مجبور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے اس کا سہارہ لے اور وہ اپنے معاملے کی آسانی کے لیے اسی کے حضور اپیل کرے اور اسی سے مدد چاہے تاکہ حتی الامکان غلطی سے بچ سکے ۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ‘اس کا سہارہ اور اس کی بار گاہ بے نیاز میں اپیل دعاوالتجا کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے ‘لہذا’’ کتاب آداب القضاۃ ‘‘کے بعد ’’کتاب الاستعاذہ ‘‘کا لانا ہی مناسب تھا ‘اس لیے امام نسائی اس جگہ یہ کتاب لائے ہیں ۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک لمحہ بھی اس جہاں میں نہیں گزار سکتا ۔کو انسان کافر ہو سکتا ہے لیکن اللہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں کہانسان اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لیتا ہے اور ہر قسم کی صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود عاجز آ جاتا ہے اس وقت وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ کسی بالاقوت کی مددحاصل ہو اور بالاقوت اللہ تعالیٰ ہے مصائب و آفتات سے بچنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتا ہے ۔ مصائب دنیوی ہوں یا اخروی ‘جسمانی ہوں یا روحانی ‘مادی ہوں یا معنوی سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت سے آسانیوں میں بدلتے ہیں ۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عمر ؓ نےفرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ”اے اللہ! میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں نیچے سے اچانک ہلاک کر دیا جاؤں۔“ یہ حدیث مختصر ہے۔ جبیر نے کہا کہ نیچے سے اچانک ہلاک کردیے جانے سے مراد ہے زمین میں دھنس جانا۔ عبادہ نےکہا: میں نہیں جانتا کہ یہ نبی ﷺ کا فرمان ہے یا جبیر کا (اپنا) قول ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”تیری عظمت“ جس طرح اللہ تعالی کی ذات سے پناہ لی جا سکتی ہے اسی طرح اللہ تعالی کی صفات کی پناہ بھی لی جا سکتی ہے کیونکہ صفات ذات سے الگ نہیں ہوتیں۔ مقصود ایک ہی ہے۔ (2) ”نیچےسے“ یعنی ایسے عذاب سے جو زمین سےآئے۔ اوردھنسایا جانا (خسف) بھی زمینی عذاب ہی سے ہوتا ہے۔ زلزلہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: «اللہم إني أعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي»”اے اللہ! میں تیری عظمت اور بڑائی کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں نیچے کی طرف سے کسی آفت میں پھنس جاؤں۔ یہ حدیث مختصر ہے۔ جبیر کہتے ہیں: اس سے مراد زمین میں دھنس جانا ہے۔ عبادہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے یا جبیر کا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Umar said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'Allahumma, inni a'udhu bi-'azamatika an ughtala min tahti (O Allah, I seek refuge in Your greatness from being swallowed up from beneath me).