تشریح:
(1) پیچھے پڑگئی یعنی اس پر عاشق ہوگئی۔ یا اس کو گمراہ کرنے کے درپے ہوگئی۔
(2) ”گلاس پلا دے“ یہ سوچ کر کہ یہ ان تینوں میں چھوٹا گناہ ہے اور جان بچانے کے لیے اس کا ارتکاب جائز ہوگا یا بڑے گناہ سے بچنے کے لیے چھوٹا گناہ کرنے کی گنجائش ہے۔
(3) ”مجھے اور پلاؤ“ کیونکہ شراب کا ایک گھونٹ دوسرے کی طرف کھینچتا ہے حتیٰ کہ ایک دفعہ پی لینے والا اس کا عادی بن جاتا ہے۔
(4) ”مار ڈالا“ نشے میں عقل پر قابو نہ رہا۔ زنا کر بیٹھا اور پھر راز فاش ہونے کے ڈر سے لڑکے کو بھی مارڈالا۔
(5) ”نکال دے گا“ اگر ایمان قوی ہوا تو ایک دفعہ پی لینے والے کو دوبارہ نہیں پینے دے گا اور اگر ایمان کمزور ہوا تو شراب آہستہ آہستہ اس سے ایمان کو نکال دے گی یعنی وہ شخص ایمان کے تمام کام چھوڑ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث یعنی تمام خرابیوں قباحتوں اور شرعی واخلاقی رذائل اور گناہوں کی ماں اور جڑ قراردیا گیا ہے۔ اسے ہمیشہ پینے والا نہ صرف تمام شرعی واخلاقی کمالات سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بلکہ دائرہ انسانیت سے نکل کر دائرہ حیوانیت میں جا پہنچتا ہے۔
(6) شراب نوشی کی نحوست یہ ہے کہ اس سے انسان کے قلب و ذہن سے ایمان زائل ہو جاتا ہے اور یہ خوفناک آفت ہے۔ اگر انسان کے پاس دولت نہ ہو تو اس سے بڑی شقاوت اور بد بختی اور کیا ہوسکتی ہے؟