باب: انگوروں کا جوس کس حال میں پینا جائز ہے اور کس میں ناجائز ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: What Kind of Juices are Permissible to Drink and What Kinds are Not)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5729.
حضرت ابو ثابت ثعلبی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے انگوروں کے جوس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جب تک وہ تازہ ہو، تم پی سکتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے ایک مشروب کو آگ پر پکایا ہے لیکن مجھے اس کے بارے میں اطمینان نہیں۔ انھوں نے فرمایا: کیا اس کو پکانے سے پہلے تو اسے پی سکتا تھا؟ اس نے کہا: نہیں۔ انھوں نے فرمایا: پھر آگ تو کسی حرام چیز کو حلال نہیں کرسکتی۔
تشریح:
انگوروں کا جوس تازہ ہوتو نشے سے پاک ہوتا ہے، لہٰذا اسے پیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ پرانا ہوجائے تو نشے کا امکان ہوتا ہے، اس لیے وہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر تازہ جوس کو آگ پر پکا کر اتنا خشک کر لیا جائے کہ اس میں نشے کا امکان نہ رہے، مثلاً: طلاء بن جائے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ گرم کرنے سے قبل پڑا رہے حتیٰ کہ اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو پھر خواہ اسے گرم کرکےطلاء بنا لیا جائے اس کا استعمال جائز نہیں کیونکہ ایک مرتبہ نشہ پیدا ہونے سے وہ حرام ہوگیا۔ اب آگ اسے حلال نہیں کرسکتی، خواہ آگ پر پکانے سے اس میں سے نشہ ختم بھی ہوجائے کیونکہ حرام چیز کو حلال بنانا جائز ہے۔ سائل کا دوسرا سوال اسی کے بارے میں تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5744
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5745
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5732
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت ابو ثابت ثعلبی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے انگوروں کے جوس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جب تک وہ تازہ ہو، تم پی سکتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے ایک مشروب کو آگ پر پکایا ہے لیکن مجھے اس کے بارے میں اطمینان نہیں۔ انھوں نے فرمایا: کیا اس کو پکانے سے پہلے تو اسے پی سکتا تھا؟ اس نے کہا: نہیں۔ انھوں نے فرمایا: پھر آگ تو کسی حرام چیز کو حلال نہیں کرسکتی۔
حدیث حاشیہ:
انگوروں کا جوس تازہ ہوتو نشے سے پاک ہوتا ہے، لہٰذا اسے پیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ پرانا ہوجائے تو نشے کا امکان ہوتا ہے، اس لیے وہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر تازہ جوس کو آگ پر پکا کر اتنا خشک کر لیا جائے کہ اس میں نشے کا امکان نہ رہے، مثلاً: طلاء بن جائے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر وہ گرم کرنے سے قبل پڑا رہے حتیٰ کہ اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو پھر خواہ اسے گرم کرکےطلاء بنا لیا جائے اس کا استعمال جائز نہیں کیونکہ ایک مرتبہ نشہ پیدا ہونے سے وہ حرام ہوگیا۔ اب آگ اسے حلال نہیں کرسکتی، خواہ آگ پر پکانے سے اس میں سے نشہ ختم بھی ہوجائے کیونکہ حرام چیز کو حلال بنانا جائز ہے۔ سائل کا دوسرا سوال اسی کے بارے میں تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوثابت ثعلبی کہتے ہیں کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس تھا اتنے میں ایک شخص آیا اور ان سے رس (شیرے) کے بارے میں پوچھا، انہوں نے کہا: جب تک تازہ ہو پیو۔ اس نے کہا: میں نے ایک مشروب کو پکایا ہے پھر بھی وہ میرے دل میں کھٹک رہا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم اسے پکانے سے پہلے پیتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: آگ سے کوئی حرام چیز حلال نہیں ہو جاتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Thabit Ath-Tha'labi said: "I was with Ibn 'Abbas when a man came to him and asked him about juice. He said: 'Drink that which is fresh.' He said: 'I cooked a drink on the fire and I am not sure about it.' He said: 'Did you drink it before you cooked it?' He said: 'No.' He said: 'Fire does not make permissible something that is forbidden.'" (Sahih Mawquf)