Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Sea Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
59.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں، چنانچہ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سمندر کا پانی طاہر و مطہر ہے اور اس میں مر جانے والے جانور حلال ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) سوال کا سبب یہ تھا کہ سمندری پانی سخت نمکین ہوتا ہے اور اس میں سمندری جانور اور مسافر مرتے رہتے ہیں۔ ان کی گندگی بھی وہیں رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شرعاً ناقابل استعمال ہو، مگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان سب کے باوجود سمندری پانی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ماء کثیر ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں ایسے اجزاء شامل فرمائے ہیں کہ اس پانی میں گندگی کرنے کے باوجود تعفن پیدا نہیں ہوتا۔ رنگ، بو اور ذائقہ بھی نہیں بدلتا۔ (2) [الْحِلُّ مَيْتَتُهُ] یعنی سمندری جانور، جو سمندر میں مر جائیں، حلال ہیں۔ اس جملے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ چونکہ سمندری جانور حلال ہیں (مرنے کے بعد بھی) لہٰذا ان کی موت سے پانی پلید نہیں ہوتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایک مزید حکم معلوم ہوگیا کہ اگر دوران سفر میں کھانے کے لیے ایسا جانور مل جائے تو اسے بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔ یہ بحث کہ اس [میتہ] ’’مردار‘‘ سے صرف مچھلی مراد ہے یا ہر سمندری جانور، اپنے مقام پر آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ (3) سوال کرنے والے آدمی کا نام عبداللہ مدلجی تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیے: (عون المعبود: ۱۵۲/۱، حدیث: ۸۳)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں، چنانچہ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سمندر کا پانی طاہر و مطہر ہے اور اس میں مر جانے والے جانور حلال ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) سوال کا سبب یہ تھا کہ سمندری پانی سخت نمکین ہوتا ہے اور اس میں سمندری جانور اور مسافر مرتے رہتے ہیں۔ ان کی گندگی بھی وہیں رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شرعاً ناقابل استعمال ہو، مگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان سب کے باوجود سمندری پانی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ماء کثیر ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں ایسے اجزاء شامل فرمائے ہیں کہ اس پانی میں گندگی کرنے کے باوجود تعفن پیدا نہیں ہوتا۔ رنگ، بو اور ذائقہ بھی نہیں بدلتا۔ (2) [الْحِلُّ مَيْتَتُهُ] یعنی سمندری جانور، جو سمندر میں مر جائیں، حلال ہیں۔ اس جملے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ چونکہ سمندری جانور حلال ہیں (مرنے کے بعد بھی) لہٰذا ان کی موت سے پانی پلید نہیں ہوتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایک مزید حکم معلوم ہوگیا کہ اگر دوران سفر میں کھانے کے لیے ایسا جانور مل جائے تو اسے بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔ یہ بحث کہ اس [میتہ] ’’مردار‘‘ سے صرف مچھلی مراد ہے یا ہر سمندری جانور، اپنے مقام پر آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ (3) سوال کرنے والے آدمی کا نام عبداللہ مدلجی تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیے: (عون المعبود: ۱۵۲/۱، حدیث: ۸۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مردار سے مراد وہ سمندری جانور ہیں جو سمندر میں مریں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، دیگر سمندری جانور نہیں، لیکن اس تخصیص پر کوئی صریح دلیل نہیں ہے، اور آیت کریمہ: ﴿أحل لكم صيدُ البحرِ وطعامُه﴾ بھی مطلق ہے۔ سائل نے صرف سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا تھا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کھانے کا بھی حال بیان کر دیا کیونکہ جیسے سمندری سفر میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے ویسے کبھی کھانے کی بھی کمی ہو جاتی ہے، اس کا مردار حلال ہے، یعنی سمندر میں جتنے جانور رہتے ہیں جن کی زندگی بغیر پانی کے نہیں ہو سکتی وہ سب حلال ہیں، گو ان کی شکل مچھلی کی نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said: “A man asked the Prophet (ﷺ) : ‘Messenger of Allah (ﷺ) , we travel by sea and we take a little water with us, but if we use it for Wudu’, we will go thirsty. Can we perform Wudu’ with sea-water?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Its water is a means of purification and its dead meat is permissible.” (Sahih)