Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: The Iqamah For One Who Is Praying Alone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
667.
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سےروایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے…… الحدیث۔
تشریح:
امام صاحب نے تفصیلی روایت ذکر نہیں کی۔ یہ مسییٔ الصلاۃ کی حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن اس سے استدلال واضح نہیں ہوتا۔ جبکہ سنن ابوداؤد کے ایک طریق میں اقامت کی تصریح موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فأقِمْثمَّكبِّرْ……] ”اقامت کہہ، پھر اس کے بعد تکبیر (تحریمہ) کہہ……“ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم: ۸۰۷) نیز السنن الکبری للنسائي: (۵۰۷/۱) میں نفس اسی عنوان کے تحت مذکور حدیث میں اقامت کا ذکر موجود ہے۔ اس طرح حدیث سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال واضح ہے کہ اکیلا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اگرچہ اس کے ساتھ کوئی اور نماز پڑھنے والا نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے شمار لشکر نماز ادا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: [فإن أقامَ صلّى معَهُ ملَكاهُ، وإن أذَّنَ وأقامَ صلّى خلفَهُمِنجنودِ اللَّهِ ما لا يرى طرفاهُ]”اگر (صرف) اقامت کہتا ہے تو اس کے ساتھ، اس کے ساتھ والے دونوں فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اس کے پیچھے اس قدر اللہ کے لشکر نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی دونوں اطراف نہیں دیکھی جا سکتیں (کیونکہ صفیں بہت ذراز ہوتی ہیں)۔“ دیکھیے: (صحیح الترغیب و الترھیب للألباني: ۲۹۵/۱) معلوم ہوا اکیلا آدمی اذان بھی دے سکتا ہے اور اقامت بھی کہہ سکتا ہے، بالخصوص جب کہ وہ آبادی سے باہر ہو۔ بہرحال اکیلے آدمی کا اقامت کہنا بے فائدہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري، وقال الترمذي: " حديث
حسن "، وقال ابن عبد البر: " هذا حديث ثابت "، وصححه ابن خزيمة) .
إسناده: حدثنا عَبَّاد بن موسى الخُتُّلِيُّ: ثنا إسماعيل- يعني: ابن جعفر-:
أخبرني يحيى بن علي بن يحيى بن خلاد بن رافع الزرَفِيُ عن أبيه عن جده عن
رفاعة بن رافع.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري.
والحديث أخرجه الطيالسىِ (1/90/390) : حدثنا إسماعيل بن جعفر
المدني... به.
وأخرجه الترمذي (2/101) ، وابن خزيمة (1/274) ، والحاكم (1/343) من
طرق أخرى عن إسماعيل... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن ".
وأخرجه البيهقي (2/380) من طريق المصنف والترمذي.
(تنبيه) : اقتصار الترمذي على تحسين الحديث قصور ظاهر؛ فإن إسناده صحيح
لا غبارعليه، لا سيما وأنه يعني بقوله: " حديث حسن "؛ أنه حسن لغيره، كما
نبه عليه في آخر كتابه. وقال المنذري في "الترغيب " (1/184) :
" قال أبو عمر بن عبد البر النَّمَرِي. هذا حديث ثابت ".
حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سےروایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے…… الحدیث۔
حدیث حاشیہ:
امام صاحب نے تفصیلی روایت ذکر نہیں کی۔ یہ مسییٔ الصلاۃ کی حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن اس سے استدلال واضح نہیں ہوتا۔ جبکہ سنن ابوداؤد کے ایک طریق میں اقامت کی تصریح موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فأقِمْثمَّكبِّرْ……] ”اقامت کہہ، پھر اس کے بعد تکبیر (تحریمہ) کہہ……“ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم: ۸۰۷) نیز السنن الکبری للنسائي: (۵۰۷/۱) میں نفس اسی عنوان کے تحت مذکور حدیث میں اقامت کا ذکر موجود ہے۔ اس طرح حدیث سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال واضح ہے کہ اکیلا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اگرچہ اس کے ساتھ کوئی اور نماز پڑھنے والا نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے شمار لشکر نماز ادا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: [فإن أقامَ صلّى معَهُ ملَكاهُ، وإن أذَّنَ وأقامَ صلّى خلفَهُمِنجنودِ اللَّهِ ما لا يرى طرفاهُ]”اگر (صرف) اقامت کہتا ہے تو اس کے ساتھ، اس کے ساتھ والے دونوں فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اس کے پیچھے اس قدر اللہ کے لشکر نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی دونوں اطراف نہیں دیکھی جا سکتیں (کیونکہ صفیں بہت ذراز ہوتی ہیں)۔“ دیکھیے: (صحیح الترغیب و الترھیب للألباني: ۲۹۵/۱) معلوم ہوا اکیلا آدمی اذان بھی دے سکتا ہے اور اقامت بھی کہہ سکتا ہے، بالخصوص جب کہ وہ آبادی سے باہر ہو۔ بہرحال اکیلے آدمی کا اقامت کہنا بے فائدہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
رفاعہ بن رافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، آگے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ «مسئی صلاۃ» ”جلدی جلدی صلاۃ پڑھنے والے شخص“ والی حدیث ہے جسے مصنف نے درج ذیل تین ابواب: باب «الرخصة فی ترک الذکر فی الرکوع ، باب الرخصة فی الذکر فی السجوداورباب أقل ما یجزی به الصلاة» میں ذکر کیا ہے ، لیکن ان تینوں جگہوں پر کسی میں بھی اقامت کا ذکر نہیں ہے، البتہ ابوداؤد اور ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اس میں «فتوضَّأ كماأمرَكاللَّهُثمَّ تشَهَّدْ وأقِمْ» کے الفاظ وارد ہیں جس سے حدیث اور باب میں مناسبت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Translation of this Hadeeth is not correct…..Actual translation is not available….
حدیث حاشیہ:
الحكم على الحديث
اسم العالم
الحكم
١. فضيلة الشيخ الإمام محمد ناصر الدين الألباني
صحيح ، و فيه : " فتوضأ كما أمر الله ، ثم تشهد فأقم ، ثم كبر ... "