Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: Saying What The Muadhdhin Says)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
673.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔“
تشریح:
(1) مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ”یہ فطرت پر ہے“ اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: ”تو آگ سے نکل گیا۔“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: ۳۸۲) ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباري: ۱۱۰/۲) (2) اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر [حيَّ على الصَّلاةِ، حيَّ على الفلاحِ] کے جواب میں [لاحولَ ولا قوةَ إلا باللهِ] ”گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔“ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں [الصلاةُ خيرٌ مِنَ النومِ] کے جواب میں [صدقتَ وبررتَ] کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ”یہ فطرت پر ہے“ اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: ”تو آگ سے نکل گیا۔“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: ۳۸۲) ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباري: ۱۱۰/۲) (2) اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر [حيَّ على الصَّلاةِ، حيَّ على الفلاحِ] کے جواب میں [لاحولَ ولا قوةَ إلا باللهِ] ”گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔“ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں [الصلاةُ خيرٌ مِنَ النومِ] کے جواب میں [صدقتَ وبررتَ] کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسا مؤذن کہتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "When you hear the call, say what the Mu'adhdhin says".