Sunan-nasai:
The Book of the Qiblah
(Chapter: Praying in an izar (waist wrap))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
767.
حضرت عمرو بن سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ جب میری قوم کے لوگ نبی ﷺ کے پاس سے لوٹے تو انھوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا: ”تمھاری امامت وہ شخص کرائے جو قرآن مجید زیادہ پڑھا ہوا ہو۔“ تو انھوں نے مجھے بلایا (کیونکہ مجھے زیادہ قرآن یاد تھا) اور مجھےرکوع اور سجدے کا طریقہ سکھایا تو میں انھیں نماز پڑھایا کرتا تھا اور مجھ پر ایک پھٹی ہوئی چادر تھی۔ لوگ میرے والد سے کہتے تھے: کیا تم ہماری نظروں سے اپنے بیٹے کی شرم گاہ نہیں ڈھانپ سکتے؟
تشریح:
(1) ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت بے پردگی ہوتی تھی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۵۸۶) (2) عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے۔ سات سال کی عمر تھی، لیکن یہ قبیلہ قافلوں کی گزرگاہ پر واقع تھا، اس لیے آنے جانے والے لوگوں سے قرآن مجید کی بہت سی آیات اور سورتیں حفظ کرچکے تھے۔ باقی لوگ اس سعادت سے محروم رہے۔ چونکہ عمرو بن سلمہ بچے تھے، اس لیے انھیں نماز کا طریقہ سکھایا گیا۔ (3) دیگر روایات میں ہے کہ پھر قبیلے کے لوگوں نے مشترکہ رقم سے کپڑا خرید کر مجھے ایک لمبی قمیص بنوا دی جس سے میں بہت خوش ہوا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۰۲)
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا هو الصحيح، وكذلك وصله البيهقي عن يريد) .
قلت: وصله البيهقي (3/225) من طريق العباس بن محمد الدوري: ثنا يزيد
ابن هارون... به بلفظ: ثنا عمرو بن سلمة:
أن أباه ونفرأ من قومه وفدوا إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حين أسلم الناس ليتعلموا
القرآن، فلما قضوا حاجتهم قالوا: من يصلي بنا- أو لنا-... الحديث نحو الرواية
المتقدمة.
وإسناده صحيح، رجالهم ثقات.
وقد رواه من طريق الحاكم؛ ولم أجده الآن في "مستدركه
صحيح أبي داود ( 599)
حضرت عمرو بن سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ جب میری قوم کے لوگ نبی ﷺ کے پاس سے لوٹے تو انھوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا: ”تمھاری امامت وہ شخص کرائے جو قرآن مجید زیادہ پڑھا ہوا ہو۔“ تو انھوں نے مجھے بلایا (کیونکہ مجھے زیادہ قرآن یاد تھا) اور مجھےرکوع اور سجدے کا طریقہ سکھایا تو میں انھیں نماز پڑھایا کرتا تھا اور مجھ پر ایک پھٹی ہوئی چادر تھی۔ لوگ میرے والد سے کہتے تھے: کیا تم ہماری نظروں سے اپنے بیٹے کی شرم گاہ نہیں ڈھانپ سکتے؟
حدیث حاشیہ:
(1) ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت بے پردگی ہوتی تھی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۵۸۶) (2) عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے۔ سات سال کی عمر تھی، لیکن یہ قبیلہ قافلوں کی گزرگاہ پر واقع تھا، اس لیے آنے جانے والے لوگوں سے قرآن مجید کی بہت سی آیات اور سورتیں حفظ کرچکے تھے۔ باقی لوگ اس سعادت سے محروم رہے۔ چونکہ عمرو بن سلمہ بچے تھے، اس لیے انھیں نماز کا طریقہ سکھایا گیا۔ (3) دیگر روایات میں ہے کہ پھر قبیلے کے لوگوں نے مشترکہ رقم سے کپڑا خرید کر مجھے ایک لمبی قمیص بنوا دی جس سے میں بہت خوش ہوا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۳۰۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ جب میرے قبیلہ کے لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ”تم میں جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرائے“ ، تو ان لوگوں نے مجھے بلا بھیجا، اور مجھے رکوع اور سجدہ کرنا سکھایا تو میں ان لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، میرے جسم پر ایک پھٹی چادر ہوتی، تو وہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے کہ تم ہم سے اپنے بیٹے کی سرین کیوں نہیں ڈھانپ دیتے۔؟
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Amr bin Salamah (RA) said: "When my people came back from the Prophet (ﷺ) they said that he had said: 'Let the one who recites the Quran most lead you in prayer'. So they called me and taught me how to bow and prostrate, and I used to lead them in prayer, wearing a torn cloak, and they used to say to my father: 'Will you not conceal your son's backside from us"'?