باب: امامت اور جماعت کے مسائل علم و فضیلت والے لوگوں کو امام بنانا چاہیے
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Mention of Al-Imamah and the congregation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
777.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم (مہاجرین) میں سے۔ حضرت عمر ؓ ان کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو تم میں سے کون چاہے گا کہ ابوبکر سے آگے بڑھے؟ انھوں نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابوبکر ؓ سے آگے بڑھیں۔
تشریح:
(1) انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انھیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: [الأئمةُمن قريشٍ]”خلفاء قریش سے ہوں گے۔“(مسند أحمد: ۱۲۹/۳، و مسند أبي داود الطیالسي، حدیث: ۲۲۴۷) اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انھیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۶۷۸، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: ۴۱۸) یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ امیر کوئی اور ہو اور جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔ (2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: ۳۷۹۰، ۳۷۹۱، و سنن ابن ماجه، السنة، حدیث: ۱۵۴) جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبریٰ، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم (مہاجرین) میں سے۔ حضرت عمر ؓ ان کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو تم میں سے کون چاہے گا کہ ابوبکر سے آگے بڑھے؟ انھوں نے کہا: ہم اس بات سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابوبکر ؓ سے آگے بڑھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انھیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: [الأئمةُمن قريشٍ]”خلفاء قریش سے ہوں گے۔“(مسند أحمد: ۱۲۹/۳، و مسند أبي داود الطیالسي، حدیث: ۲۲۴۷) اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انھیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۶۷۸، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: ۴۱۸) یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ امیر کوئی اور ہو اور جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کرسکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہوگیا۔ (2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: ۳۷۹۰، ۳۷۹۱، و سنن ابن ماجه، السنة، حدیث: ۱۵۴) جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبریٰ، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر ؓ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎ ، تو اب بتاؤ ابوبکر ؓ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا ؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر ؓ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ۲؎ : اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق «أقرَأَكم أُبَيُّ» فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ۳؎ : اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah (RA) said: "When the Messenger of Allah (ﷺ) passed away, the Ansar said: 'Let there be an Amir from among us and an Amir from among you.' Then 'Umar (RA) came to them and said: 'Do you not know that the Messenger of Allah (ﷺ) commanded Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer? Who among you could accept to put himself ahead of Abu Bakr'? They said: 'We seek refuge with Allah from putting ourselves ahead of Abu Bakr"'.