باب: جب تین آدمی ہوں تو امام کہاں کھڑا ہو؟ اور اس میں اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Where the Imam should stand when there are three, and the discrepancy regarding that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
799.
حضرت اسود اور علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس دوپہر کے وقت حاضر ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: تحقیق (وہ وقت) قریب ہے کہ ایسے امراء ہوں گے جو نماز کے وقت (اور کاموں میں) مصروف رہیں گے چنانچہ تم نماز وقت پر پڑھ لیا کرو پھر وہ اٹھے اور ہمارے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھائی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) یہ روایت ان کثیر صحیح روایات کے خلاف ہے جن میں دو مقتدیوں کو امام کے پیچھے کھڑا کرنے کا ذکر ہے لہٰذا یہ روایت منسوخ ہے یعنی آغاز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا پھر ترک کر دیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے۔ یا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں گے۔ انسان تھے اور نسیان بشر کا لازمہ ہے۔ اس کی تائید دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے جیسے ان کا رکوع میں تطبیق کرنا (دونوں ہاتھوں کو بجائے دونوں گھٹنوں پر رکھنے کے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں پیوست کرکے گھٹنوں کے درمیان رکھ لینا) وغیرہ۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو آغاز میں یہ صرف ابن مسعود اور ان کے صاحبین کا موقف تھا۔ باقی تمام صحابہ اور دیگر ائمہ عظام کثیر احادیث کی روشنی میں اسی بات کے قائل ہیں کہ جب تین افراد ہوں تو ایک کو آگے ہی امامت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ اور یہی حق ہے۔ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۸۴-۸۰/۱۰) (۲) بعض نے اس حدیث کو ہارون بن عنترہ کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔ ان کے بقول یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل ہے جو مرفوع احادیث کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً درست ہے اور جمہور کے نزدیک ہارون ثقہ ہے۔ الغرض یہ حدیث اب قابل عمل نہیں۔ مزید دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني رقم الحدیث: ۶۲۶)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرح المرفوع منه: مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما"
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا محمد بن فُضَيْل عن هارون بن
عنترة عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبيه قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هارون بن
عنترة؛ وهو ثقة.
وتناقض فيه ابن حبان! واختلف النقل عن الدارقطني؛ ففي "التهذيب ":
" وقال البرقاني: سألت الدارقطني عن عبد الملك بن هارون بن عنترة؟ فقال:
متروك يكذب، وأبوه يحتج به، وجلّه يعتبر به "!
وكذا في "الميزان " في ترجمة هارون هذا. وأما في ترجمة ابنه عبد الملك؛
فقال: إنه " يروي عن أبيه. قال الدارقطني: هما ضعيفان ".
وأقره في "اللسان ".
وأما ما نقله الزيلعي (2/33) عن النووي أنه قال:
" فيه هارون بن عنترة، وهو وإن وثقه أحمد وابن معين؛ فقد قال الدارقطني:
هو متروك كان يكذب "!
فإنه نقل خطأ عن الدارقطني؛ فإنما قال هذا في (عبد الملك) ابن المترجم، كما
نقلناه آنفاً من الكتب الموثوقة! والله أعلم. وقال المنذري في "مختصره" :
" وفي إسناده هارون بن عنترة، وقد تكلم فيه بعضهم. وقال أبو عمر النمَري:
وهذا الحديث لا يصح رفعه، والصحيح فيه عندهم التوقيف على ابن مسعود: أنه
كذلك صلى بعلقمة والأسود. وهذا الذي أشار إليه أبو عمر؛ قد أخرجه مسلم في
"صحيحه "، وهو موقوف ".
قلت: قد أخرجه مسلم مرفوعاً أيضا كما سنبينه.
وهارون بن عنترة؛ لم يتكلم فيه غير الدارقطني وابن حبان؛ مع أنهما وثقاه
أيضا؛ فالأخذ بتوثيقهما إياه أولى؛ لأمرين:
الأول: أنه جرح غير مفسر.
والأخر: أنه موافق لحكم الأئمة الأخرين عليه بالثقة.
ثم إنه لم يمرد به؛ بل قد تابعه محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن
الأسود، ومنصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود، كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (رقم 4030) : حدثنا ابن فضيل... به.
وأخرجه النسائي (1/128- 129) من طريق أخرى عن ابن فضيل... به؛
لكن لم يقل: عن أبيه! فصار ظاهره الانقطاع!
وليس كذلك؛ بل هو متصل؛ بدليل رواية المصنف والنسائي؛ وفيه عنده زيادة
في أوله.
وأخرجه الطحاوي (1/181) ، والبيهقي (3/98) ، وأحمد (رقم 4311) من
طريق محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود.
فهذه متابعة قوية لهارون بن عنترة.
وقد أعله النووي- كما في "نصب الراية" (2/34) - بقوله:
" وابن إسحاق مشهور بالتدليس، وقد عنعن، والمدلس إذا عنعن لا يحتج به
بالاتفاق "!
قلت: قد صرح بسماعه في رواية لأحمد (رقم 4386) : حدثنا يعقوب:
حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: وحدثني عبد الرحمن بن الأسي بن يزيد
النخعي قال:
دخلت أنا وعمي علقمة على عبد الله بن مسعود بالهاجرة، قال: فأقام الظهر
ليصلي، فقمنا خلفه، فأخذ بيدي ويد عمي، ثم جعل أحدنا عن يمينه والأخر عن
يساره، ثم قام بيننا، فصففنا خلفه صفاً واحدأ، قال: ثم قال: هكذا كان رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصنع إذا كانوا ثلاثة... الحديث.
فزالت شيهة التدليس، وعاد الحديث صحيحاً لا شبهة فيه.
وتابعه أيضا أبو إسحاق عن ابن الأسود عن علقمة والأسود:
أنهما كانا مع ابن مسعود، فحضرت الصلاة، فتأً خر علقمة والأسود، فأخذ
ابن مسعود بأيديهما، فأقام أحدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ثم ركعا، فوضعا
أيديهما على ركبهما وضرب أيديهما، ثم طبَّق بين يديه وشبك، وجعلهما بين
فخذيه، وقال: رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعله.
أخرجه أحمد (رقم 3927 و 3928) من طريق إسرائيل عنه.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وإسرائيل: هو ابن يونس بن أبي
إسحاق السبيعي؛ وأبو إسحاق هو جده.
ولإسرائيل فيه إسناد آخر:
رواه مسلم (2/69) ، وأبو عوانة (2/166) من طريق عبيد الله بن موسى عنه
عن منصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود... به مثل حديثه عن جده؛ إلا أنه
قال في آخره:
فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فهذا صريح- أو كالصريح- في أن كلاً من الميامنة والمياسرة، والتطبيق: مرفوع
إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ولا يعكر على هذا: أن الأعمش رواه عن إبراهيم ولم يصرح برفع الأمر الأول
منهما؛ لما عرف أن زيادة الثقة مقبولة؛ لا سيما إذا جاءت من طريق أخرى، كما
في حديث الباب.
وحديث الأعمش سيأتي بعضه في الكتاب (رقم 814) .
وبالجملة؛ فالحديث صحيح مرفوع إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإن من أعله بالوقف
مخطئ؛ لأنه لم يتتبع طرقه، ولم يتوسع في تخريجه!
حضرت اسود اور علقمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس دوپہر کے وقت حاضر ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: تحقیق (وہ وقت) قریب ہے کہ ایسے امراء ہوں گے جو نماز کے وقت (اور کاموں میں) مصروف رہیں گے چنانچہ تم نماز وقت پر پڑھ لیا کرو پھر وہ اٹھے اور ہمارے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھائی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت ان کثیر صحیح روایات کے خلاف ہے جن میں دو مقتدیوں کو امام کے پیچھے کھڑا کرنے کا ذکر ہے لہٰذا یہ روایت منسوخ ہے یعنی آغاز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا پھر ترک کر دیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے۔ یا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں گے۔ انسان تھے اور نسیان بشر کا لازمہ ہے۔ اس کی تائید دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے جیسے ان کا رکوع میں تطبیق کرنا (دونوں ہاتھوں کو بجائے دونوں گھٹنوں پر رکھنے کے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں پیوست کرکے گھٹنوں کے درمیان رکھ لینا) وغیرہ۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو آغاز میں یہ صرف ابن مسعود اور ان کے صاحبین کا موقف تھا۔ باقی تمام صحابہ اور دیگر ائمہ عظام کثیر احادیث کی روشنی میں اسی بات کے قائل ہیں کہ جب تین افراد ہوں تو ایک کو آگے ہی امامت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ اور یہی حق ہے۔ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۸۴-۸۰/۱۰) (۲) بعض نے اس حدیث کو ہارون بن عنترہ کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔ ان کے بقول یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل ہے جو مرفوع احادیث کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً درست ہے اور جمہور کے نزدیک ہارون ثقہ ہے۔ الغرض یہ حدیث اب قابل عمل نہیں۔ مزید دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني رقم الحدیث: ۶۲۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسود اور علقمہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم دوپہر میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا: عنقریب امراء نماز کے وقت سے غافل ہو جائیں گے، تو تم لوگ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا، پھر وہ اٹھے اور میرے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اہل علم کی ایک جماعت جن میں امام شافعی بھی شامل ہیں نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے مکہ میں سیکھا تھا، اس میں تطبیق کے ساتھ اور دوسری باتیں بھی تھیں جو اب متروک ہیں، یہ بھی منجملہ انہیں میں سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Buraidah bin Sufyin bin Farwah Al-Aslami narrated that a slave of his grandfather who was called Mas'ood said: "The Messenger of Allah (ﷺ) and Abu Bakr (RA) passed by me and Abu Bakr said to me: 'O Mas'ud, go to Abu Tamim' - meaning the man from whom he had been freed - 'and tell him to give us a camel so that we could ride, and let him send us some food and a guide to show us the way.' So I went to my former master and told him the same, and he sent with me a camel and vessels of milk, and I brought them via a secret route. Then the time for prayer came and the Messenger of Allah (ﷺ) stood up and prayed, and Abu Bakr stood to his right. I had come to know about Islam and I was with them, so I came and stood behind them. So the Messenger of Allah (ﷺ) pushed Abu Bakr on the chest (to make him move backward) and we stood behind him". Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasai)said: (This) Buraidah is not a reliable narrator of Hadith.