Sunan-nasai:
The Book of Purification
(Chapter: (Using) Siwak At All Times)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
8.
قاضی شریح سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے کون سا کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: مسواک کرتے۔
تشریح:
(1) یہ باب پچھلے باب کا تسلسل بھی ہوسکتا ہے کہ آپ جب بھی گھر تشریف لاتے، مسواک کرتے۔ ظاہر ہے آپ اکثر روزہ دار ہوتے تھے، لہٰذا روزہ دار ہر وقت مسواک کرسکتا ہے۔
(2) ’’ہر وقت میں‘‘ عرفی استغراق (عموم) ہے نہ کہ حقیقی۔ ورنہ بہت سے اوقات عقلاً و شرعاً مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز و قراءت کے درمیان، کھانا کھاتے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے اور قضائے حاجت وغیرہ کے دوران میں وغیرہ۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
8
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
8
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
8
تمہید کتاب
٭لغوی تعریف: لفظ الطهارة باب تفعل سے اسم مصدر ہے جیسے طهر يطهر تطهيرا و طهارة بروزن كلم يكلم تكليما و كلاما – معنی ہیں :میل کچیل ‘گندگی اور نجاست سے پاکیزگی اور صفائی حاصل کرنا ۔ (سبل السلام)٭اصطلاحی تعریف: حدثِ اصغر (بے وضو ہو نے ) اور حدث اکبر (جنابت ‘احتلام ‘ حیض اور نفاس) کی صورت میں مسنون طریقے سے پانی سے وضو اور غسل کرنے یا پانی کی عدم موجودگی یا اس کے استعمال پر عدم قدرت کی صورت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کر نے کو طہارت کہتے ہیں ۔٭طہارت کی اقسام:طہارت کی دو قسمیں ہیں 1. طہارتِ حقیقی :حدث اصغر اور حدث اکبر کی حالت میں پانی کی عدم موجودگی یا اس کی استعمال پر عدم قدرت میں پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنا ‘ طہارتِ حکمی ہے ۔٭طہارت و نظافت کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت : اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔اس میں انسانی فطرتِ سلیمہ کے ہر تقاضے اور ضرورت کا مکمل حل موجود ہے ۔ انسان کے طبعی تقاضوں کی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ اس کی طبعی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کیا گیا ہے ‘پھر انسان کو انھی اعمال کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کو وہ آسانی نبھا سکے کیونکہ اصل حکیم و مدبر تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے ۔ شرعی احکام میں قدرت الٰہی اور اسی کی تدبیر و حکمت کار فرما ہے ‘اس لیے بغیر کسی افراط و تفریط کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام میں وہ رہنما اصول مقرر فرمائے جن میں اخروی سر خروئی کے ساتھ دنیوی فوائد بھی پنہاں ہیں ۔ان میں سے ایک اہم ضابطہ ‘طہارت و صفائی کا اہتمام بھی ہے کیونکہ پاکیزگی اور اس کا حصول عین انسانی فطرت ہے ‘اسی لیے احادیث میں کہیں [عشرٌ مِّنَ الفطرةِ]’’دس چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم‘حدیث:261) اور کہیں [خمسُ مِّنَ الْفطْرَةِ] ’’پانچ چیزیں فطری امور میں سے ہیں ۔‘‘صحیح البخاری ‘اللباس‘ حدیث:5889 وصحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:257) وغیرہ کی تعلیم دے کر بدن کو پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ خود تو جمیل ہو لیکن جمال کو پسند نہ کرے کیونکہ عابد کو معبود کے سامنے دن رات کی مختلف گھڑیوں میں اپنی جبیں نیاز جھکانے کا حکم ہے اور نجاست اور پلیدی کی صورت میں عابد اور معبود کا آپس میں تعلق کیسے جر سکتا ہے ؟ حدیث میں آتا ہے [ان الله جميل يحب الجمال ]’’اللہ تعالیٰ انتہائی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔‘‘صحیح مسلم‘الایمان‘ حدیث91) قرآن مجید میں ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)’’اللہ تعالیٰ خوب توبہ کرنے والوں کو پسند کر تا ہے ۔‘‘(البقرۃ2 : 222 ) عہد نبوت میں پانی کی کمی تھی ‘لوگ بول و براز سے فراغت کے بعد ڈھیلے استعمال کرتے تھے ‘ لیکن اہل قباء اس دقت کے باوجود پانی ہی سے حصول طہارت کی کوشش کرتے ‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسی خصلت اور کمال حصول کی بنا پر قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے (فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ) ’’ اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب طہارت حاصل کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ اچھی طرح پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ (التوبۃ 9:108)صفائی اور طہارت کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ) ’’اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘(المدثر 74: 4 ‘5) اسی لیے اسلام کے اہم رکن نماز کے لیے طہارت کو شرط قرار دیا گیا ہے ۔ نبئ اکرم ﷺ نے طہارت کی ترغیب کے ساتھ ساتھ خود بھی عملا امت کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا ہے ہر نماز کے وقت مسواک کرتے اور اس کا شوق دلاتے ‘گھر آتے وقت ‘نیز صبح کو بیدار ہوتے کے بعد مسواک کا اہتمام کرتے ‘آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور منہ کی صفائی کا ذریعہ قرار دیا ہے وضو ٹوٹنے کے بعد اسی لمحے دربارہ وضو کرنے والے کو مومن قرار دیا ‘فرمایا:[لا يحافظ على الوضوء إلا مومنٌ]’’ مومن ہی وضو کی حفاظت ( اور اس پر ہمیشگی ) کرتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ ‘الطہارۃ و سننھا‘ حدیث‘277‘وصحیح الترغیب و الترھیب:1/198)مونچھیں کترانے ‘ڈاڑھی بڑھانے ‘ مسواک کرنے ‘وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے ‘کلی کرنے ‘ختنے کرانے ‘ناخن تراشنے ‘زیر ناف بال مونڈنے‘ بغلوں کی صفائی کرنے ‘استنجا کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے گویا ان کی صفائی کا اہتمام انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی کی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے ‘ اس لیے مونچھیں ،ناخن،بغلوں، اور زیر ناف بالوں کو چھوڑنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن قرار دی ۔زہیر بن ابو علقمہ فرماتے ہیں : نبئ اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی میلے کچیلے کپڑے پہن کر پراگندہ حالت میں آیا تو آپ نے پوچھا :’’تیرے پاس مال ہے ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا: جی ہاں ‘ ہر قسم کا مال موجود ہے ‘تب آپ نے فرمایا :’’ تو پھر اس کے اثرات بھی تم پر نظر آنے چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمتوں کے اچھے اثرات نظر آئیں ۔‘‘مجمع الزوائد:5/ 132‘رقم :8583‘وسلسلۃ الاحادیث الصحیۃ: 3/311) لہذا پرا گندا حالت میں رہنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور نہ یہ کسی ولایت اور اللہ کے ہاں کسی تقرب کی دلیل ہے جیسا کہ آج کل بہت سے نام نہاد صوفی جو ولایت اور تقرب کا جھانسا دے کر ننگ دھڑنگ اور گندگی میں لت پت ’’طریقت‘‘ پر عمل پیرا ہیں یہ سراسر اسلام کے نظام طہارت کے خلاف ہے اسی طرح جوتے کی صفائی کا حکم ہے جبکہ ضرورت کے پیش نظر اس میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو ۔ غرضیکہ تمام امور میں صفائی اور طہارت کو لازمی قرار دیاگیا ہے ‘ مثال کے طور پر چند اہم امور درج ذیل ہیں :(1) غسل خانے میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(2) ضرورت کے پیش نظر اگر کسی برتن میں پیشاب کیا ہے تو اسے جلد بہا دیا جائے ‘زیاد یر رکھنے سے گندگی اور تعفن پھیلے گا جس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوں گے-(3) برتنوں کی صفائی کا اہتمام ‘جیسے اگر برتن کتا چاٹ جائے تو سات دفعہ دھونے کا حکم ‘برتنوں کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم ۔(4) سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے کوئی اس کی چھاؤں میں بیٹھنا چاہے۔(5) آباد راستے میں بول و براز کرنا منع ہ اس سے آنے جانے والوں کو اذیت ہو گیاور یہ باعث لعنت ہے (6( پانی کے حوض ‘گھاٹ ‘ کنویں اور عام کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے ۔(7) پیشاب کے چھینٹوں سے بچاؤ کا اہتمام ‘ وگرنہ اس پر سخت عذاب ہوگا۔(8( بیٹھ کر اور نرم جگہ پر پیشاب کیا جائے تا کہ کپڑے آلودگی سے محفوظ رہیں (9)جنبی کا غسل کرنے میں حد سے زیادہ سستی کرنا نا پسندیدہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے (صحیح الترغیب والترھیب :1/199)(10) طہارت و صفائی کے اہتمام کی خاطر غسل جنابت کا اسلام کے دیگر ارکان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے : [وتغسل من الجنابة ] ’’اور تو جنابت سے غسل کرے ۔‘‘(صحیح الترغیب و الترھیب :1/185)(11) وضو جہاں ناک ‘منہ‘ گلے ‘آنکھوں اور کان وغیرہ کی صفائی ہوتی ہے ‘ وہاں اس کے کثیر فضائل بھی بیان کیے گئے تاکہ مزید نظافت کا اہتمام ہو۔(12) طہارت او روضو کے اہتمام کو دخول جنت اور رفع درجات کا باعث بنایا جیسا کہ حضرت بلال کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے ۔ (صحیح الترغیب و الترھیب:1/199)(13) طہارت و پاکیزگی کا اہتمام اور پھر اس کے لیے دعا گو رہنا مسنون ہے جیسا کہ [واجعلنى من المتطهرين ]’’اور مجھے بہت زیادہ پاک رہنے والو ں میں سے بنا دے ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے ۔(جامع ترمذی ‘الطہارۃ‘حدیث :55)(14) احتلام ‘جنابت اور حیض و نفاس کے بعد غسل کا حکم اور خروج مذی‘ ودی اور رطوبت کے بعد وضو کا حکم عظمت طہارت کی واضح دلیل ہے ۔(15) بچے اور بچی کے پیشاب کی صورت میں چلو بھر پانی سے چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے ‘لیکن حصول طہارت بہر حال لازمی ہے ۔(16) زمین کی پاکیزگی کا حکم جیسا کہ اعرابی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہانے کا حکم ہے ۔(17) یہاں تک کہ مردہ حلال جانور کی کچی کھال کی طہارت کے لیے دباغت (چمڑا رنگنے ) کو لازم قرار دیا ۔(18) گوبر اور ہڈی وغیرہ سے استنجا اور طہارت حاصل کرنا منع ہے ۔الحاصل: دین فطرت ‘اسلام دیگر تمام ادیان و مذاہب پر ان امور میں فائق ہے یہودیت ‘عسائیت‘ مجوسیت‘ہندومت ‘بدھ مت اور سکھ مذہب میں طہارت و نظافت کا یہ اہتمام بالکل مفقود ہے ان مذاہب کے حامل ،حیوانوں کی سی زندگی گزارتے ہیں بلکہ بعض امور میں ان سے بڑھ کر ہیں ۔ اسلام کی یہ وہ امتیازی خوبی ہے جس پر مشرکین کو تعجب ہوا اور انھوں نے طنزاً حضرت سلمان فارسی سے کہا:ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارا نبی تمھیں قضائے حاجت کے آداب تک سکھاتا ہے ۔ انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ ارو شرمندگی کے مدبرانہ انداز میں تحمل سے جواب دیا : ہاں آپ نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے اور پیشاب ‘ پاخانے کے وقت قبلہ رخ ہوتے سے منع فرمایا ہے ارو یہ کہ ہم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم میں استنجا نہ کرے اور گوبر یا ہڈی سے بھی استنجا نہ کر ے۔(صحیح مسلم‘الطہارۃ ،حدیث:262)یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ اس نے طہارت و پاکیزگی کو نصف ایمان یا ایمان کا ایک حصہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:[الطهور شطر الايمان]’’صفائی نصف ایمان ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم ‘الطہارۃ،حدیث:223) بہر حال صفائی کا اہتمام ایمان ہے اور ایمان ہی دخول جنت کا باعث ہے ۔سنن نسائی کا اندازِ تالیف فقہی کتب جیسا ہے جن میں صرف اعمال شرعیہ کا بیان ہوتا ہے اعمال کی دو قسمیں ہیں : عبادت اور معاملات چونکہ عبادات حقوق اللہ ہیں اس لیے ان کا درجہ مقدم ہے عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان پر آغاز ِشعور سے دمِ واپسیں تک فرض ہے ‘نیز یہ تمام عبادات کی جامع ہے ‘اس لیے عبادت میں اسے مقدم کیا جاتا ہے ۔نماز کی شرط میں طہارت سب سے اہم ہے ‘لہذا اس کا تذکرہ سب سے پہلے ہوتا ہے طہارت سے مراد یہ ہے کہ نمازی کا جسم لباس اور مکان نجاست سے پاک ہوں۔ضروری ہے کہ جسم ظاہری اور معنوی نجاست سے پاک ہو معنوی نجاست سے مراد بے وضو ہونا اور جنبی ہونا ہے آئندہ احادیث میں دونوں کی نجاست سے طہارت کا ذکر ہے معنوی نجاست سے طہارت کا ذکر پیلے کیاگیا ہے کیونکہ اس کا نماز سے خصوصی تعلق ہے ۔
قاضی شریح سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے کون سا کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: مسواک کرتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ باب پچھلے باب کا تسلسل بھی ہوسکتا ہے کہ آپ جب بھی گھر تشریف لاتے، مسواک کرتے۔ ظاہر ہے آپ اکثر روزہ دار ہوتے تھے، لہٰذا روزہ دار ہر وقت مسواک کرسکتا ہے۔
(2) ’’ہر وقت میں‘‘ عرفی استغراق (عموم) ہے نہ کہ حقیقی۔ ورنہ بہت سے اوقات عقلاً و شرعاً مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز و قراءت کے درمیان، کھانا کھاتے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے اور قضائے حاجت وغیرہ کے دوران میں وغیرہ۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شریح کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو کون سا کام پہلے کرتے؟ انہوں نے کہا: مسواک سے( پہل کرتے)۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں کس درجہ لطافت تھی کہ منہ میں معمولی تغیر کا پیدا ہونا بھی گوارا نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Miqdam— Abu Shuraih — that his father said: “I said to ‘'Aishah (RA): ‘What did the Prophet (ﷺ), start with when he entered his house?’ She said: ‘The Siwak.” (Sahih)