Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: How the Imam should straighten the rows)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
810.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو ایسے سیدھا فرماتے تھے جیسے تیر سیدھے کیے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے آگے نکلا ہوا تھا۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ فرما رہے تھے: یقیناً تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور تمھارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔
تشریح:
(1) تیر سیدھا نہ ہو تو نشانے پر نہیں لگ سکتا اس لیے تیر باقاعدہ شکنجے کے ساتھ سیدھے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اہتمام سے صفیں سیدھی فرمایا کرتے تھے کیونکہ صفوں کی درستی دراصل پوری امت کی اصلاح ہے۔ (2) ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ اس جملے کے مختلف مفہوم ہیں: اللہ تعالیٰ تمھارے چہرے پچھلی جانب لگا دے گا۔ تمھارے چہرے بگاڑ دے گا مسخ کر دے گا۔ تم میں اختلاف پیدا کر دے گا جس طرف کسی کا منہ اٹھے گا چل دے گا۔ اور یہی مفہوم اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقال النووي: " حديث حسن إسناده جيد ".
وقال الحافظ: " حديث صحيح ". وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في
"صحيحيهما"، وللشيخين منه: " لتُسَوُّن صفوفكم، أو ليخالفَنَ الله بين
وجوهكم ". وعلق البخاري مختصراً قوله: فرأيت... إلخ، وأسنده من قول
أنس) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة. ثنا وكيع عن زكريا بن أبي زائدة عن
أبي القاسم الجَدَلِيِّ قال: سمعت النعمان بن بشير.
قلت: وهذا سند صحيح، رجاله ثقالت رجال الشيخين؛ غير أبي القاسم
الجدلي- واسمه: الحسين بن الحارلسا الكوفعب-؛ روى عنه جماعة من الثقات.
وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات".
وصحح له الدارقطني حديثاً، يأتي في الكتاب (رقم 2026) .
وعلَقه البخاري في "صحيحه " (2/167) - القدر المذكور في الحديث بصيغة
الجزم، فقال:
" وقال النعمان بن بشير:
رأيت الرجل يُلْزِقن كعبه بكعب صاحبه ". وقال الحافظ في "شرحه ":
" وصححه ابن خزيمة ". وقال في مونححع آخر (1/235) :
" حديث صحيح ". وقال النووي في "المجمرع " (1/421) :
" حديث حسن، رواه أبو داود والبيهقي وغيرهما بأسانيد جيدة "!
وقوله: " بأسانيد "! فيه نظر؛ فإنه لا إسناد له إلا هذا؛ ولكن النووي رحمه
الله جرى في كتبه على هذا الاستعمال، في الأحاديث التي تكثر الأسانيد إلى
بعض رواتها ممن دون الصحابي؛ وهذا اصطلاح خاص به، لا ينبغي أن يغْتَرَّ به!
والحديث أخرجه البيهقي (3/100- 101) من طريق المصنف.
وأخرجه الإمام أحمد (4/276) : ثنا وكيع... به.
وأخرجه البيهقي ايضاً (1/76) من طريق أبى بكر محمد بن إسحاق بن
خزيمة: ثنا سَلْم بن خنَادة: ثنا وكيع... به.
وابن خزيمة هذا: هو صاحب "الصحيح " المعروف به؛ وقد أخرجه في
"صحيحه "- كما في "التلخيص " (1/357) -، وأشار إلى ذلك في "الفتح "، كما
نقلناه آنفاً عنه.
ورواه ابن حبان أيضا في "صحيحه "، كما في "الترغيب " (1/176) .
ورواه الطبراني في "الكبير"؛ على ما في "التلخيص ".
وأخرجه الدارقطني (ص 105) من طريق أخرى عن زكريا بن أبي زائدة.
ولبعضه طرق أخرى:
أحدهما: عن شعبة: أخبرني عمرو بن مرة: سمعت سالم بن أبي الجَعْدِ
يقول: سمعت النعمان بن بشير يقول: قال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
" لَتُسَوُّنَّ صفوفكم؛ أو ليخالفَنَّ الله بين وجوهكم ".
أخرجه البخاري (2/164) ، ومسلم (2/31) ، وأبو عوانة (2/40) ، والبيهقي
(3/100) ، والطيالسي (رقم 799) ، وأحمد (277) من طرق عن شعبة... به.
والطريق الأخرى تأتي في الكتاب عقب هذا الحديث.
ولبعضه الأخر شاهد من حديث أنس مرفوعاً:
" أقيموا صفوفكم؛ فإني أراكم من وراء ظهري ". وكان أحدنا يلزق منكبه
بمنكب صاحبه، وقدمه بقدمه.
أخرجه البخاري (2/167- 168) من طريق حميد عنه. قال الحافظ:
" رواه سعيد بن منصور عن هُشَيْم؛ فصرح فيه بتحديث أنس لحميد، وفيه
الزيادة التي في آخره، وهي قوله: وكان احدنا... إلى آخره. وصرح بأنها من قول
أنس. وأخرجه الإسماعيلي من رواية معمر عن حميد بلفظ: قال أنس: فلقد
رأيت أحدنا... إلى اخره. فأفاد هدْا التصريح: أن الفعل المذكور كان في زمن
النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وقال:
" وزاد معمر في روايته. ولو فعلت ذلك بأحدهم اليوم؛ لَنَفَر كأنه بَغْل
شَمُوسن ".
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کو ایسے سیدھا فرماتے تھے جیسے تیر سیدھے کیے جاتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے آگے نکلا ہوا تھا۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ فرما رہے تھے: یقیناً تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور تمھارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) تیر سیدھا نہ ہو تو نشانے پر نہیں لگ سکتا اس لیے تیر باقاعدہ شکنجے کے ساتھ سیدھے کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اہتمام سے صفیں سیدھی فرمایا کرتے تھے کیونکہ صفوں کی درستی دراصل پوری امت کی اصلاح ہے۔ (2) ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ اس جملے کے مختلف مفہوم ہیں: اللہ تعالیٰ تمھارے چہرے پچھلی جانب لگا دے گا۔ تمھارے چہرے بگاڑ دے گا مسخ کر دے گا۔ تم میں اختلاف پیدا کر دے گا جس طرف کسی کا منہ اٹھے گا چل دے گا۔ اور یہی مفہوم اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفیں درست فرماتے تھے جیسے تیر درست کئے جاتے ہیں، آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم اپنی صفیں ضرور درست کر لیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فر مادے گا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا، مطلب ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا جس کی وجہ سے تمہارے اندر تفرق و انتشار عام ہو جائے گا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے اس کے حقیقی معنیٰ مراد ہیں یعنی تمہارے چہروں کو گدّی کی طرف پھیر کر انہیں بدل اور بگاڑ دے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Al-Bara (RA) bin Azib said: "The Messenger of Allah (ﷺ) used to go between the rows from one side to another, patting our shoulders and chests and saying: 'Do not make your rows ragged or your hearts will be filled with enmity toward one another'. And he used to say: 'Allah and His angels send Salah upon the front rows"'.