Sunan-nasai:
Description Of Wudu'
(Chapter: Al.Madmadah And Al-Istinshaq (Rinsing The Mouth And Nose))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
84.
حضرت حمران بن ابان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا۔ آپ نے وضو کیا اور اپنے ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالا اور انھیں دھویا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا دایاں بازو کہنی تک تین دفعہ دھویا۔ پھر بایاں بازو بھی اسی طرح دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنا دایاں پاؤں تین دفعہ دھویا اور پھر بایاں پاؤں بھی اسی طرح دھویا۔ پھر کہنے لگے: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا، آپ نے میرے وضو کی طرح وضو کیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ اپنے دل میں کوئی بات نہ کرے، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) مضمضہ اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتاً نہیں ہے، مگر احادیث میں ان کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [إذا توضا أحدکم فلیجعل في أنفه ماء ثم لینشر]’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر اسے جھاڑے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث ۱۴۰) مزید آپ نے فرمایا: [بالغ في الاستنشاق الا ان تکون صائما]’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر الا یہ کہ تو روزے سے ہو۔‘‘ ان احادیث میں ناک میں پانی چڑھانے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے، نیز کلی کے متعلق فرمایا: [اذا توضات فمضمض]’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کلی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے کلی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ﴿فاغسلوا وجوھکم﴾ چہرا دھونے کا حکم ہے جبکہ چہرے میں ناک اور منہ بھی شامل ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی وجوب کا ہوگا۔ الگ ناموں کی وجہ سے اصل مسمی سے خارج نہ ہوں گے، جیسے رخسار اور آنکھیں چہرے سے خارج نہیں ہوتے۔ مضمضمہ اور استنشاق کے وجوب کی مؤید یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی ان کا التزام کیا ہے۔ آپ سے یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کہیں یہ نہیں ملتا کہ کبھی آپ نے انھیں چھوڑا ہو، نیز آپ کا وضو فرمانا حکم وضو والی آیت کی عملی تفسیر تھا، اس لیے ان کا حکم بھی وجوب ہی کا ہوگا۔ جن علماء نے ’’عشر من السنن‘‘ کی بنا پر مضمضہ اور اشتنشاق کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کا بھی ذکر ہے، اسی حدیث میں باقی امور فطرت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ کیونکہ ان امور فطرت کو بجا لانا ضروری ہے، جیسے زیر ناف کے بالوں کا مونڈنا اور بغلوں کی صفائی وغیرہ تو کیا انھیں چھوڑا بھی جا سکتا ہے؟ تو اگر سنت سے ان کی مراد اصطلاحی سنت جو فقہاء کے ہاں واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے تو یہ بات صراحتاً مذکورہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال وضو اور غسل میں دونوں کا بجا لانا ضروری ہے اگر انھیں وضو میں ترک کر دیا جائے تو وضو باطل ہوگا اور دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ یہ موقف جلیل ائمہ کی ایک جماعت کا ہے، جیسے امام احمد، اسحاق اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ۔ دیکھیے (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: ۲۷) (2) فطری طور پر بھی مضمضمہ اور استنشاق ضروری ہیں کیونکہ نماز کے تمام اوراد و اذکار کی ادائیگی منہ اور ناک کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو عضو صاف نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ کہ ادائیگی میں خرابی واقع ہوگی بلکہ قریبی نمازیوں اور فرشتوں کو بدبو سے تکلیف بھی ہوگی۔ (3) ’’اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد قابل معافی گناہ ہیں، مثلاً: صغائر، جبکہ کبائر کی معافی کے لیے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ (4) وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ جس وقت بھی وضو کیا جائے اس وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کرتے ہوئے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي الحُلْوَاني: ثنا عبد للرزاق: أخبرنا معمر عن
الزهري عن عطاء بن يزيد الليثي.
وهذا سند صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجاه.
والحديث أخرجه أبو عوانة في "صحيحه " (1/239- 240) ، والبيهقي
(1/57- 58) عن عبد الرزاق... به.
وأخرجه أحمد أيضا (1/59/رقم 421) : حدثنا عبد الرزاق... به.
وأخرجه البخاري (4/128) ، والبيهقي أيضا (1/56) من طريق عبد الله- وهو
ابن المبارك-: أخبرنا معمر... به نحوه.
وأخرجه البخاري (1/208 و 210 و 214) ، ومسلم وأبو عوانة والنسائي
والدارمي، والدارقطني (35) ، والبيهقي أيضا (1/48 و 49 و 53 و 86) ، وأحمد
(1/339 رقم 418 و 428) من طرق عن للزهري... به نحوه.
وله عندهم طرق أخرى أخصر منه عن عثمان.
حضرت حمران بن ابان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا۔ آپ نے وضو کیا اور اپنے ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالا اور انھیں دھویا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا دایاں بازو کہنی تک تین دفعہ دھویا۔ پھر بایاں بازو بھی اسی طرح دھویا۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر اپنا دایاں پاؤں تین دفعہ دھویا اور پھر بایاں پاؤں بھی اسی طرح دھویا۔ پھر کہنے لگے: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا، آپ نے میرے وضو کی طرح وضو کیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ اپنے دل میں کوئی بات نہ کرے، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مضمضہ اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتاً نہیں ہے، مگر احادیث میں ان کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [إذا توضا أحدکم فلیجعل في أنفه ماء ثم لینشر]’’جب تم میں سے کوئی ایک وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے، پھر اسے جھاڑے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث ۱۴۰) مزید آپ نے فرمایا: [بالغ في الاستنشاق الا ان تکون صائما]’’ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کر الا یہ کہ تو روزے سے ہو۔‘‘ ان احادیث میں ناک میں پانی چڑھانے کا حکم ہے اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے، نیز کلی کے متعلق فرمایا: [اذا توضات فمضمض]’’جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں کلی کرنے کا حکم دیا ہے جس سے کلی کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ﴿فاغسلوا وجوھکم﴾ چہرا دھونے کا حکم ہے جبکہ چہرے میں ناک اور منہ بھی شامل ہے، لہٰذا ان کا حکم بھی وجوب کا ہوگا۔ الگ ناموں کی وجہ سے اصل مسمی سے خارج نہ ہوں گے، جیسے رخسار اور آنکھیں چہرے سے خارج نہیں ہوتے۔ مضمضمہ اور استنشاق کے وجوب کی مؤید یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی ان کا التزام کیا ہے۔ آپ سے یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے کہیں یہ نہیں ملتا کہ کبھی آپ نے انھیں چھوڑا ہو، نیز آپ کا وضو فرمانا حکم وضو والی آیت کی عملی تفسیر تھا، اس لیے ان کا حکم بھی وجوب ہی کا ہوگا۔ جن علماء نے ’’عشر من السنن‘‘ کی بنا پر مضمضہ اور اشتنشاق کو سنت قرار دیا ہے کیونکہ اس حدیث میں مضمضہ اور استنشاق کا بھی ذکر ہے، اسی حدیث میں باقی امور فطرت کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ کیونکہ ان امور فطرت کو بجا لانا ضروری ہے، جیسے زیر ناف کے بالوں کا مونڈنا اور بغلوں کی صفائی وغیرہ تو کیا انھیں چھوڑا بھی جا سکتا ہے؟ تو اگر سنت سے ان کی مراد اصطلاحی سنت جو فقہاء کے ہاں واجب کے مقابلے میں ہوتی ہے تو یہ بات صراحتاً مذکورہ دلائل کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال وضو اور غسل میں دونوں کا بجا لانا ضروری ہے اگر انھیں وضو میں ترک کر دیا جائے تو وضو باطل ہوگا اور دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ یہ موقف جلیل ائمہ کی ایک جماعت کا ہے، جیسے امام احمد، اسحاق اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرہ۔ دیکھیے (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: ۲۷) (2) فطری طور پر بھی مضمضمہ اور استنشاق ضروری ہیں کیونکہ نماز کے تمام اوراد و اذکار کی ادائیگی منہ اور ناک کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ دو عضو صاف نہ کیے گئے تو نہ صرف یہ کہ ادائیگی میں خرابی واقع ہوگی بلکہ قریبی نمازیوں اور فرشتوں کو بدبو سے تکلیف بھی ہوگی۔ (3) ’’اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد قابل معافی گناہ ہیں، مثلاً: صغائر، جبکہ کبائر کی معافی کے لیے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ (4) وضو کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ اور یہ جس وقت بھی وضو کیا جائے اس وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو کرتے ہوئے ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمران بن ابان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ کو دیکھا آپ نے وضو کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی انڈیلا، انہیں دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر کہنی تک اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر اسی طرح بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پیر دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، اور فرمایا: ” جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، اور دل میں کوئی اور خیال نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے. “ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ایسا خیال جو دنیاوی امور سے متعلق ہو اور نماز سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، اور اگر خود سے کوئی خیال آ جائے اور اسے وہ ذہن سے جھٹک دے تو یہ معاف ہو گا، ایسے شخص کو ان شاء اللہ یہ فضیلت حاصل ہو گی کیونکہ یہ اس کا فعل نہیں ۔ ”گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے“: اس سے مراد وہ صغائر ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Humran bin Aban said: “I saw ‘Uthman bin ‘Affan (RA), may Allah be pleased with him, performing Wudu. He poured water on his hands three times and washed them, then he rinsed his mouth and his nose, then he washed his face three times, then he washed his right arm to the elbow three times, then the left likewise. Then he wiped his head, then he washed his right foot three times, then the left likewise. Then he said: ‘I saw the Messenger of Allah (ﷺ) performing Wudu’ like I have just done. Then he said: ‘Whoever performs Wudu’ as I have done, then prays two Rak’ahs without letting his thoughts wander, his previous sins will be forgiven.” (Sahih)