Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: A stern warning against failing to pray in congregation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
847.
معدان بن ابو طلحہ یعمری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت ابودرداء ؓ نے کہا: تیری رہائش گاہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: حمص کے قریب ایک بستی میں۔ ابودرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ”کسی بستی یا صحرا میں جو بھی تین آدمی اکٹھے رہتے ہوں اور ان میں جماعت قائم نہ کی جاتی ہو تو یقین رکھو کہ ان پر شیطان غالب آچکا ہے۔ جماعت قائم رکھو کیونکہ بھیڑیا اسی بھیڑ بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔“ سائب راوی نے کہا کہ یہاں جماعت سے نماز کی جماعت مراد ہے۔
تشریح:
انسان مدنی الطبع ہے، اکیلا رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات اکیلا پوری نہیں کرسکتا۔ اکیلے سے افزائش نسل بھی نہیں ہوسکتی، بالکل اسی طرح دینی زندگی بھی اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی ارکان اسلام کی ادائیگی بھی اکیلے کے لیے کماحقہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جہاں بھی ایک سے زائد مسلمان رہتے ہوں، وہ مل جل کر رہیں۔ اپنے میں سے افضل شخص کو امیر اور امام بنائیں۔ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کی ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ نظم و ضبط کے ساتھ کام کریں۔ نماز چونکہ اسلامی زندگی کا لازمی اور دائمی جز ہے بلکہ جزو اعظم ہے، لہٰذا اس میں اجتماعیت ضروری ہے۔ نماز باجماعت پڑھنا لازمی ہے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جب کہ جماعت میں بندھا ہوا شخص محفوظ رہتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریوڑ اور بھیڑیے کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور بلاوجہ جمہور اہل علم سے جدا نہیں ہونا چاہیے کیوکہ تفرد اور شذوذ (اکیلا ہو جانا) انسان کو شیطان کے قریب کر دیتا ہے بلکہ دراصل یہ شیطان داؤ ہے۔ صحابہ و تابعین کی جماعت کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن، وقال النووي: " إسناده صحيح كه، وقال الحاكم:
" صدوق رواته "، ووافقه الذهبي. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان (2098) في
"صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا أحمد بن يونس: ثنا زائدة. ثنا السائب بن حُبَيْش عن مَعْدان
ابن أبي طلحة اليَعْمَرِي عن أبي الدرداء.
وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير السائب بن حبيش،
وهو الكَلاعي الحمصي، وقد وثقه العجلي وابن حبان. وقال الدارقطني:
" صالح الحديث من أهل الشام، لا أعلم حدث عنه غير زائدة ".
قلت: وقال الحاكم بعد أن أخرج الحديث:
" وقد عرف من مذهب زائدة أنه لا يحدث إلا عن الثقات ". ووافقه الذهبي.
وهذه فائدة لا تجدها في كتب الرجال؛ فينبغي أن تقيد.
هذا وقد ذكر في "التهذيب " راوياً آخر عنه؛ وهو حفص بن عمر بن رواحة
الحلبي،.
والحديث أخرجه النسائي (1/135) ، والحاكم (1/211) ، وأحمد (5/196
و 6/446) من طرق عن زائدة بن قدامة... به. وقال الحاكم:
" حديث صدوق رواته، متفق على الاحتجاج بهم؛ إلا السائب بن حبيش؛
وقد عرف من مذهب زائدة أنه لا يحدث إلا عن الثقات "، ووافقه الذهبي.
ثم أخرجه الحاكم في موضع آخر (1/246) ، وقال:
" حديث صحيح "، ووافقه الذهبي أيضا.
وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان (2098) في "صحيحيهما"؛ كما في
" الترغيب " (1/156) . وقال النووي في " المجموع " (4/183) :
" إسناده صحيح ". وأما في "الرياض "؛ فقال- كما قلنا نحن-:
" إسناده حسن ".
وللحديث طريق أخرى: عند أحمد (6/445) .
وفيه حاتم بن أبي نصر؛ وهو مجهول
المشكاة ( 1067 )التعليق الرغيب ( 1 / 156
معدان بن ابو طلحہ یعمری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت ابودرداء ؓ نے کہا: تیری رہائش گاہ کہاں ہے؟ میں نے کہا: حمص کے قریب ایک بستی میں۔ ابودرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ”کسی بستی یا صحرا میں جو بھی تین آدمی اکٹھے رہتے ہوں اور ان میں جماعت قائم نہ کی جاتی ہو تو یقین رکھو کہ ان پر شیطان غالب آچکا ہے۔ جماعت قائم رکھو کیونکہ بھیڑیا اسی بھیڑ بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔“ سائب راوی نے کہا کہ یہاں جماعت سے نماز کی جماعت مراد ہے۔
حدیث حاشیہ:
انسان مدنی الطبع ہے، اکیلا رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام ضروریات اکیلا پوری نہیں کرسکتا۔ اکیلے سے افزائش نسل بھی نہیں ہوسکتی، بالکل اسی طرح دینی زندگی بھی اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ جیسے اہم اور بنیادی ارکان اسلام کی ادائیگی بھی اکیلے کے لیے کماحقہ ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جہاں بھی ایک سے زائد مسلمان رہتے ہوں، وہ مل جل کر رہیں۔ اپنے میں سے افضل شخص کو امیر اور امام بنائیں۔ اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اس کی ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ نظم و ضبط کے ساتھ کام کریں۔ نماز چونکہ اسلامی زندگی کا لازمی اور دائمی جز ہے بلکہ جزو اعظم ہے، لہٰذا اس میں اجتماعیت ضروری ہے۔ نماز باجماعت پڑھنا لازمی ہے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جب کہ جماعت میں بندھا ہوا شخص محفوظ رہتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریوڑ اور بھیڑیے کی مثال بیان فرمائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجماع امت کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور بلاوجہ جمہور اہل علم سے جدا نہیں ہونا چاہیے کیوکہ تفرد اور شذوذ (اکیلا ہو جانا) انسان کو شیطان کے قریب کر دیتا ہے بلکہ دراصل یہ شیطان داؤ ہے۔ صحابہ و تابعین کی جماعت کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ مجھ سے ابودرداء ؓ نے پوچھا: تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں نے کہا: حمص کے دُوَین نامی بستی میں، اس پر ابودرداء ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”جب کسی بستی یا بادیہ میں تین افراد موجود ہوں، اور اس میں نماز نہ قائم کی جاتی ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑیا ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری ہی کو کھاتا ہے۔“ سائب کہتے ہیں: جماعت سے مراد نماز کی جماعت ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "By the One in Whose Hand is my soul! I nearly ordered that firewood be gathered to be lit, then I would have ordered that the Adhan be called for prayer, and ordered a man to lead the people in prayer, then I would have gone from behind to those men and burned their houses down over them. By the One in Whose Hand is my soul! If any one of them knew that he would get a meaty bone or some meat in between two ribs, he would attend Isha'''.