باب: اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ لے تو جماعت ملنے کی صورت میں دوبارہ پڑھنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Repeating a prayer with the congregation when a man has already prayed by himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
857.
حضرت محجن ؓ سے مروی ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں تھے کہ نماز کی اذان کہی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ اٹھے، پھر (نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو (دیکھا کہ) محجن اپنی جگہ ہی میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمھیں نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن میں گھر میں نماز پڑھ آیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم مسجد میں آؤ (اور جماعت مل جائے) تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو، اگرچہ تم (اکیلے) نماز پڑھ چکے ہو۔“
تشریح:
(1) معلوم ہوا اکیلے آدمی کی نماز بھی ہوجاتی ہے، چاہے گھر ہی میں پڑھ لے، بشرطیکہ کوئی عذر ہو، وگرنہ بلاعذر نماز باجماعت ترک کرنا گناہ ہے، نیز جماعت شرط نہیں ہے جیسا کہ اہل ظاہر کا موقف ہے، بہرحال عذر کی صورت میں معمول کے مطابق اجر ملتا ہے۔ (2) اگرا نسان اکیلا نماز پڑھ لے یہ سمجھ کر کہ جماعت نہ ملے گی یا جماعت ہوچکی ہے یا شاید میں مسجد میں نہ جاسکوں وغیرہ، پھر وہ مسجد میں آئے اور نماز باجماعت مل جائے تو اسے نماز باجماعت دہرانی چاہیے تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے۔ احناف تین نمازوں کو دوبارہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ مغرب، فجر اور عصر کیونکہ بعد میں پڑھی جانے والی نماز نفل ہوگی۔ فجر اور عصر کے بعد نفل جائز نہیں۔ مغرب دوبارہ پڑھنے کی صورت میں تین نفل بن جائیں گے اور نفل تین ہوتے، حالانکہ یہ خاص حکم ہے۔ عصر اور فجر کے بعد نفل کی ممانعت عام ہے۔ عام کو خاص سے مقید کیا جاسکتا ہے۔ باقی رہے تین نفل تو شریعت کا حکم آجانے کے بعد ممانعت جاتی رہی، نیز اگر ان نمازوں کا دہرانا منع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت فرماتے کیونکہ اکثر کا استثنا مناسب نہیں۔ اگر صرف دو نمازیں ہی دہرانی ضروری یا جائز ہوتیں تو صرف ان دو نمازوں ہی کا نام لے لیتے کیونکہ یہاں وضاحت ضروری تھی۔ غلط فہمی کا امکان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضاحت نہ فرمانا دلیل ہے کہ ہر نماز دہرائی جاسکتی ہے۔ یہ خاص حکم ہے۔ اسے عام پر ترجیح ہوگی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح "،
وصححه ابن السكن. وأخرجه ابن حبان في "صحيحه"، وصححه ابن خزيمة
أيضا) .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة: أخبرني يعلى بن عطاء عن جابر
ابن يزيد بن الأسود عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير جابر بن يزيد
ابن الأسود؛ وقد قال النسائي: إنه
"ثقة".
وذكره ابن حبان في "الثقات "- وقال الحافظ في "التقريب ":
" صدوق ".
والحديث أخرجه الطيالسي (رقم 1247) : حدثنا شعبة... به.
ومن طريقه: أخرجه الطحاوي (1/213) .
وأخرجه الدارمي (1/317) ، وابن خزيمة (1638) ، وابن حبان (435) ،
والدارقطني (ص 159) ، والبيهقي (2/300) ، وأحمد (4/161) من طرق أخرى
عن شعبة... به.
وأخرجه النسائي (1/137) ، والترمذي (1/424- 425) ، وابن خزيمة وابن
حبان، والدارقطني، والحاكم (1/244- 245) ، والبيهقي (2/301) ، وابن أبي
شيبة (2/274- 275) ، وأحمد (4/160- 161) من طرف أخرى عن يعلي بن
عطاء ... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح ". وقال الحاكم.
" هذا حديث رواه شعبة وهشام بن حسان وغَيْلان بن جامع وأبو خالد
الدالاني وأبو عوانة وعبد اللك بن عمير ومبارك بن فَضَالة وشريك بن عبد الله
وغيرهم: عن يعلي بن عطاء؛ وقد احتج مسلم بيعلى بن عطاء "!
قلت: فماذا كان؟! ومن فوقه لم يحتج به مسلم ولا البخاري؟! وقال البيهقي:
" وقال الشافعي رحمه الله في (القديم) : وهذا إسناد مجهول. وإنما قال ذلك
- والله أعلم-؛ لأن يزيد بن الأسود ليس له راوٍ غير ابنه جابر بن يزيد، ولا لجابر
ابن يزيد راوٍ غير يعلى بن عطاء. وهذا الحديث له شواهد، فالاحتجاج به
وبشواهده صحيح ". قال الحافظ في "التلخيص " (4/297) :
" قلت: يعلى من رجال مسلم. وجابر وثقه النسائي وغيره. وقد وجدنا لجابر
ابن يزيد راوياً غير يعلى: أخرجه ابن مندة في "المعرفة" من طريق بقية عن إبراهيم
ابن ذي حِماية عن عبد الملك بن عمير عن جابر ".
قلت: وأخرجه الدارقطني أيضا (ص 159) عن بقية.
والحديث صححه ابن السكن عن يعلى، كما قال الحافظ.
ومن شواهده التي أشار إليها البيهقي: حديث أبي ذر:
" صَلِّ الصلاة لوقتها؛ فإن أدركتها معهم فصل؛ فإنها لك نافلة ".
أخرجه مسلم وأبو عوانة في "صحيحيهما"، وأصحاب "السنن "، وقد مضى
في أوائل " الصلاة " (رقم 458) .
ومنها: عن محجن: عند النسائي بسند حسن لغيره.
وعن عبد الله بن سَرْجِس: عند الطبراني في "الكبير"؛ وفيه ضعف أو
جهالة .انظر " المجمع " (2/45) .
صحيح أبي داود ( 591)
حضرت محجن ؓ سے مروی ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں تھے کہ نماز کی اذان کہی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ اٹھے، پھر (نماز پڑھ کر) واپس تشریف لائے تو (دیکھا کہ) محجن اپنی جگہ ہی میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمھیں نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن میں گھر میں نماز پڑھ آیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم مسجد میں آؤ (اور جماعت مل جائے) تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو، اگرچہ تم (اکیلے) نماز پڑھ چکے ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا اکیلے آدمی کی نماز بھی ہوجاتی ہے، چاہے گھر ہی میں پڑھ لے، بشرطیکہ کوئی عذر ہو، وگرنہ بلاعذر نماز باجماعت ترک کرنا گناہ ہے، نیز جماعت شرط نہیں ہے جیسا کہ اہل ظاہر کا موقف ہے، بہرحال عذر کی صورت میں معمول کے مطابق اجر ملتا ہے۔ (2) اگرا نسان اکیلا نماز پڑھ لے یہ سمجھ کر کہ جماعت نہ ملے گی یا جماعت ہوچکی ہے یا شاید میں مسجد میں نہ جاسکوں وغیرہ، پھر وہ مسجد میں آئے اور نماز باجماعت مل جائے تو اسے نماز باجماعت دہرانی چاہیے تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے۔ احناف تین نمازوں کو دوبارہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ مغرب، فجر اور عصر کیونکہ بعد میں پڑھی جانے والی نماز نفل ہوگی۔ فجر اور عصر کے بعد نفل جائز نہیں۔ مغرب دوبارہ پڑھنے کی صورت میں تین نفل بن جائیں گے اور نفل تین ہوتے، حالانکہ یہ خاص حکم ہے۔ عصر اور فجر کے بعد نفل کی ممانعت عام ہے۔ عام کو خاص سے مقید کیا جاسکتا ہے۔ باقی رہے تین نفل تو شریعت کا حکم آجانے کے بعد ممانعت جاتی رہی، نیز اگر ان نمازوں کا دہرانا منع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت فرماتے کیونکہ اکثر کا استثنا مناسب نہیں۔ اگر صرف دو نمازیں ہی دہرانی ضروری یا جائز ہوتیں تو صرف ان دو نمازوں ہی کا نام لے لیتے کیونکہ یہاں وضاحت ضروری تھی۔ غلط فہمی کا امکان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضاحت نہ فرمانا دلیل ہے کہ ہر نماز دہرائی جاسکتی ہے۔ یہ خاص حکم ہے۔ اسے عام پر ترجیح ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محجن ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی، تو رسول اللہ ﷺ اٹھے (اور جا کر نماز پڑھی) ، پھر (نماز پڑھ کر) لوٹے، اور محجن اپنی مجلس ہی میں بیٹھے رہے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: ”تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟“ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! لیکن میں نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”جب تم آؤ (اور لوگ نماز پڑھ رہے ہوں) تو لوگوں کے ساتھ تم بھی نماز پڑھ لیا کرو، اگرچہ تم پڑھ چکے ہو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin Yazid bin Al-Aswad Al 'Amir told us that his father said: "I attended Fajr prayer with the Messenger of Allah (ﷺ) in Masjid Al Khaif. When he finished praying, he saw two men at the back of the people who had not prayed with him. He said: 'Bring them here'. So they were brought to him, trembling. He said: 'What kept you from praying with us? They said: 'O Messenger of Allah (ﷺ) we has already prayed in our lodgings'. He said: 'Do not do that. If you have already prayed in your lodgings, then you come to a Masjid in which there is a congregation, then pray with them, and it will be a voluntary prayer for you"'.