باب: جو آدمی فجر کی نماز اکیلا پڑھ چکا ہو، جماعت مل جانے کی صورت میں وہ دوبارہ پڑھے
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Repeating Fajr with the congregation for one who has already prayed on his own)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
858.
حضرت یزید بن اسود عامری ؓ نے کہا کہ میں نے فجر کی نماز مسجد خیف میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ نے نماز پوری فرمالی تو آپ نے لوگوں (نمازیوں) کے آخر میں دو آدمی دیکھے جنھوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”انھیں میرے پاس لاؤ۔“ انھیں آپ کے پاس لایا گیا تو ان کے کندھوں کا گوشت کانپ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تمھیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے مت کرو۔ جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہو، پھر تم مسجد میں آؤ اور جماعت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو۔ وہ (بعد والی) تمھارے لیے نفل ہوجائے گی۔“
تشریح:
(1) مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔ (2) ”کانپ رہا تھا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہوجاتا تھا۔ انھیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔ (3) اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔ (4) ”نفل ہوجائے گی۔“ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح "،
وصححه ابن السكن. وأخرجه ابن حبان في "صحيحه"، وصححه ابن خزيمة
أيضا) .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة: أخبرني يعلى بن عطاء عن جابر
ابن يزيد بن الأسود عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير جابر بن يزيد
ابن الأسود؛ وقد قال النسائي: إنه
"ثقة".
وذكره ابن حبان في "الثقات "- وقال الحافظ في "التقريب ":
" صدوق ".
والحديث أخرجه الطيالسي (رقم 1247) : حدثنا شعبة... به.
ومن طريقه: أخرجه الطحاوي (1/213) .
وأخرجه الدارمي (1/317) ، وابن خزيمة (1638) ، وابن حبان (435) ،
والدارقطني (ص 159) ، والبيهقي (2/300) ، وأحمد (4/161) من طرق أخرى
عن شعبة... به.
وأخرجه النسائي (1/137) ، والترمذي (1/424- 425) ، وابن خزيمة وابن
حبان، والدارقطني، والحاكم (1/244- 245) ، والبيهقي (2/301) ، وابن أبي
شيبة (2/274- 275) ، وأحمد (4/160- 161) من طرف أخرى عن يعلي بن
عطاء ... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح ". وقال الحاكم.
" هذا حديث رواه شعبة وهشام بن حسان وغَيْلان بن جامع وأبو خالد
الدالاني وأبو عوانة وعبد اللك بن عمير ومبارك بن فَضَالة وشريك بن عبد الله
وغيرهم: عن يعلي بن عطاء؛ وقد احتج مسلم بيعلى بن عطاء "!
قلت: فماذا كان؟! ومن فوقه لم يحتج به مسلم ولا البخاري؟! وقال البيهقي:
" وقال الشافعي رحمه الله في (القديم) : وهذا إسناد مجهول. وإنما قال ذلك
- والله أعلم-؛ لأن يزيد بن الأسود ليس له راوٍ غير ابنه جابر بن يزيد، ولا لجابر
ابن يزيد راوٍ غير يعلى بن عطاء. وهذا الحديث له شواهد، فالاحتجاج به
وبشواهده صحيح ". قال الحافظ في "التلخيص " (4/297) :
" قلت: يعلى من رجال مسلم. وجابر وثقه النسائي وغيره. وقد وجدنا لجابر
ابن يزيد راوياً غير يعلى: أخرجه ابن مندة في "المعرفة" من طريق بقية عن إبراهيم
ابن ذي حِماية عن عبد الملك بن عمير عن جابر ".
قلت: وأخرجه الدارقطني أيضا (ص 159) عن بقية.
والحديث صححه ابن السكن عن يعلى، كما قال الحافظ.
ومن شواهده التي أشار إليها البيهقي: حديث أبي ذر:
" صَلِّ الصلاة لوقتها؛ فإن أدركتها معهم فصل؛ فإنها لك نافلة ".
أخرجه مسلم وأبو عوانة في "صحيحيهما"، وأصحاب "السنن "، وقد مضى
في أوائل " الصلاة " (رقم 458) .
ومنها: عن محجن: عند النسائي بسند حسن لغيره.
وعن عبد الله بن سَرْجِس: عند الطبراني في "الكبير"؛ وفيه ضعف أو
جهالة .انظر " المجمع " (2/45) .
صحيح أبي داود ( 591)
حضرت یزید بن اسود عامری ؓ نے کہا کہ میں نے فجر کی نماز مسجد خیف میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ نے نماز پوری فرمالی تو آپ نے لوگوں (نمازیوں) کے آخر میں دو آدمی دیکھے جنھوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”انھیں میرے پاس لاؤ۔“ انھیں آپ کے پاس لایا گیا تو ان کے کندھوں کا گوشت کانپ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تمھیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسے مت کرو۔ جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہو، پھر تم مسجد میں آؤ اور جماعت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو۔ وہ (بعد والی) تمھارے لیے نفل ہوجائے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔ (2) ”کانپ رہا تھا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہوجاتا تھا۔ انھیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔ (3) اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔ (4) ”نفل ہوجائے گی۔“ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یزید بن اسود عامری ؓ کہتے ہیں کہ میں مسجد خیف میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز میں موجود تھا، جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے آخر میں دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو میرے پاس لاؤ“ ، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا، ان کے مونڈھے (گھبراہٹ سے) کانپ رہے تھے وہ گھبرائے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا: ”تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ تو ان دونوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب تم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکو، پھر مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو تم ان کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہو جائے گی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جو تم دونوں نے امام کے ساتھ پڑھی ہے یا جو تم نے ڈیرے میں پڑھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ahu Dharr (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said to me, and struck my thigh: 'What will you do if you stay among people who delay the prayer until its time is over'? He said: 'What do you command me to do'? He said: 'Offer the prayer on time, then go about your business. Then if the Iqamah for that prayer is said and you are in the Masjid, then pray'".