باب: (افضل) وقت گزر جانے کے بعد بھی نماز جماعت کے ساتھ دہرانا
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Repeating a prayer with a congregation after the time for it is over)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
859.
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ”تمھارا کیا حال ہوگا جب تم ان لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے؟“ میں نے کہا: آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نماز وقت پر پڑھ لیا کرنا، پھر اپنا کام کرنا، پھر اگر مسجد میں تمھاری موجودگی کے دوران میں جماعت شروع ہوجائے تو پڑھ لینا۔“
تشریح:
(1) اس سے جماعت اور لزوم جماعت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، خواہ لوگ افضل اور مستحب وقت کے بعد بھی جماعت کروائیں، تب بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ ہاں! اپنی نماز وقت پر محفوظ کرلے۔ گویا کسی حال میں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں کیونکہ جماعت سے علیحدہ ہونے اور تفرد وشذوذ کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے صحابہ نے اپنے اجتہاد پر جماعت کے عمل کو ترجیح دی ہے کیونکہ ایک میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جتنے اہل علم ہوں گے، اتنا ہی غلطی کا احتمال کم ہوجائےگا حتیٰ کہ جب اجماع (تمام معتبر اہل علم کا اتفاق جس کے خلاف کچھ منقول نہ ہو) ہوجاتا ہے تو غلطی کا احتمال بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔ (2) ران پر ہاتھ مارنا تنبیہ کے لیے ہے کہ یہ بات تجھ سے متعلق ہے، اچھی طرح سمجھ لے۔ آپ نے اس قسم کے بہت سے مسائل میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات دیں۔ واقعتاً انھیں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا اور انھوں نے باوجود اختلاف کے جماعت کو نہیں چھوڑا۔ اگرچہ مفسدین اور امت مسلمہ کے بدخواہ انھیں اشتعال دلانے کی کوششیں کرتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بنا پر وہ محفوظ رہے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت : فما تأمرني ؟ قال : صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصل فإنها لك نافلة ( زاد في رواية ) : وإلا كنت قد أحرزت صلاتك ) . وأخرجها أحمد أيضا ( 5 / 149 و 163 و 169)
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ”تمھارا کیا حال ہوگا جب تم ان لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کریں گے؟“ میں نے کہا: آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نماز وقت پر پڑھ لیا کرنا، پھر اپنا کام کرنا، پھر اگر مسجد میں تمھاری موجودگی کے دوران میں جماعت شروع ہوجائے تو پڑھ لینا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے جماعت اور لزوم جماعت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، خواہ لوگ افضل اور مستحب وقت کے بعد بھی جماعت کروائیں، تب بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ ہاں! اپنی نماز وقت پر محفوظ کرلے۔ گویا کسی حال میں جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں کیونکہ جماعت سے علیحدہ ہونے اور تفرد وشذوذ کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے صحابہ نے اپنے اجتہاد پر جماعت کے عمل کو ترجیح دی ہے کیونکہ ایک میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ جتنے اہل علم ہوں گے، اتنا ہی غلطی کا احتمال کم ہوجائےگا حتیٰ کہ جب اجماع (تمام معتبر اہل علم کا اتفاق جس کے خلاف کچھ منقول نہ ہو) ہوجاتا ہے تو غلطی کا احتمال بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔ (2) ران پر ہاتھ مارنا تنبیہ کے لیے ہے کہ یہ بات تجھ سے متعلق ہے، اچھی طرح سمجھ لے۔ آپ نے اس قسم کے بہت سے مسائل میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات دیں۔ واقعتاً انھیں ایسے حالات سے سابقہ پیش آیا اور انھوں نے باوجود اختلاف کے جماعت کو نہیں چھوڑا۔ اگرچہ مفسدین اور امت مسلمہ کے بدخواہ انھیں اشتعال دلانے کی کوششیں کرتے رہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بنا پر وہ محفوظ رہے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے میری ران پہ ہاتھ مار کر مجھ سے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے تو کیسے کرو گے؟“ انہوں نے کہا: آپ جیسا حکم دیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”نماز اول وقت پر پڑھ لینا، پھر تم اپنی ضرورت کے لیے چلے جانا، اور اگر جماعت کھڑی ہو چکی ہو اور تم (ابھی) مسجد ہی میں ہو تو پھر نماز پڑھ لینا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sulaiman - the freed slave of Maimunah - said: "I saw Ibn 'Umar (RA) sitting in Al-Balat when the people were praying. I said: 'O Abu 'Abdur- Rahman, why are you not praying'? He said: 'I have already prayed, and I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: "Do not repeat a prayer twice in one day".