باب: جو شخص مسجد میں امام کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ چکا ہو، اس سے نماز کا ساقط ہو جانا
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: The obligation of prayer is removed from one who offered it in the masjid with the Imam in congregation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
860.
حضرت میمونہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سلیمان نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو فرش پر بیٹھے دیکھا جب کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! کیا وجہ ہے کہ آپ نماز نہیں پڑھ رہے؟ انھوں نے کہا: میں نماز پڑھ چکا ہوں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ایک نماز دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جاسکتی۔“
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت سے یہ سمجھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے باجماعت نماز پڑھ چکے تھے۔ لوگ اکیلے اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، یا ممکن ہے کہ دوسری جماعت ہو، تب یہ مکالمہ ہوا ہو۔ اگر صورت حال یہی تھی تو پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جواب اور استنباط صحیح ہے۔ لیکن ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ہو رہی تھی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے اکیلے پڑھ کر بیٹھے تھے۔ اس صورت میں ان کا استنباط محل نظر ہے کیونکہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیثیں ان کے علم میں نہیں تھیں ورنہ دوسری مرتبہ نماز پڑھنا اسی وقت منع ہے جب پہلے نماز باجماعت کامل طریقے سے پڑھی گئی ہو، لوٹانے کی کوئی وجہ نہ ہو، یا دونوں دفعہ فرض کی نیت کی گئی ہو۔ یہ آخری توجیہ و تطبیق امام احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کی ہے اور حدیث سے یہی مراد ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي:۱۰؍۳۴۸)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه ابن السكن. وأخرجه ابن خزيمة
وابن حبان (2389) في "صحيحيهما". وقال النووي: " إسناده حسن ") .
إسناده: حدثنا أبو كامل: ثنا يزيد بن زُرَبْع: ثنا حسين عن عمرو بن شعيب
عن سليمان- يعني: مولى ميمونة-.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير عمرو بن
شعيب، وهو ثقة، وفيه كلام لا ينزل حديثه عن درجة الحسن، كما تقدم، وقد
صحح حديثه هذا من يأتي ذكره.
والحديث أخرجه النسائي (1/138) ، والدارقطني (ص 159- 160) ،
والبيهقي (303) ، وكذ ا الطحاوي (1/187) ، وأحمد (رقم4689و 4994) وأبو
نعيم في "الحلية" (8/385 و 9/231) من طرق أخرى عن حسين المعلم... به.
وقال الدارقطني:
" تفرد به حسين العلم عن عمرو بن شعيب ".
قلت: حسين ثقة احتج به الشيخان في "صحيحيهما".
وعمرو قد عرفت حاله. وقال أبو الطيب فهب تعليقه على "الدارقطني ":
" ورواه ابن حبان في "صحيحه"، وقال: عمرو بن شعيب في نفْسه ثقة،
يحتج بخبره إذا روى عن غير أبيه ".
ورواه ابن خزيمة في "صحيحه ". قال الخووي في "الخلاصة ":
" إسناده صحيح ".
ونقل المناوي عن ابن السكن أنه صححه.
ولعمرو بن شعيب فيه إسناد آخر بزيادة فيه: أخرجه الطحاوي من طريق عامر
الأحول عن عمرو بن شعيب عن خالد بن أيمن المَعَافِرِيِّ قال:
كان أهل العوالي يصلون في منازلهم ويصلون مع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فنهاهم رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يعيدوا الصلاة في يوم مرتين. قال عمرو: قد ذكرت ذلك لسعيد بن
المسيب؟ فقال: صدق.
قلت: وهذا إسناد مرسل حسن بمتابعة سعيد بن المسيب.
وأما خالد بن أيمن المعافري؛ فقال الحافظ ابن حجر:
" تابعي أرسل، وذكره ابن حبان في "الثقات "؛ كما في "كشف الأستار".
واعلم أن هذا الحديث عام، مخصوص بالحديث المتقدم في الباب السابق وما
في معناه؛ فإنه يدل على جواز- بل استحباب- إعادة الصلاة مع الجماعة بنية
النفل. وإلى هذا ذهب ابن عمر نفسه؛ فقد روى الطحاوي عن عثمان بن سعيد
ابن أبي رافع قال:
أرسلني محَررُ بن أبي هريرة إلى ابن عمر أساله: إذا صلى الرجل الظهر في
بيته، ثم جاء إلى المسجد والناس يصلون، فصلى معهم؛ أيتهما صلاته؟ فقال ابن
عمر: صلاته الأولى.
فلو كان يرى أن الصلاة الأخرى منهيٌّ عنها مطلقاً؛ لنهاه ولما أقره عليها، ولما
كان لبيانه له أن الصلاة المفروضة من الصلاتين هي الأولى ا
وأصرح من ذلك ما أخرجه مالك (1/153) عن نافع:
أن رجلاً سأل عبد الله بن عمر، فقال: إني أصلي في بيتي، ثم أدرك الصلاة
مع الإمام؛ أفأصلي معه؟ فقال له عبد الله بن عمر: نعم. فقال الرجل: أيتهما
أجعل صلاتي؟ فقال ابن عمر: أو ذلك إليك؟! إنما ذلك إلى الله، يجعل أيتهما
شاء! وحينئذ فتَرْكُ ابن عمر إعادة الصلاة في حديث الباب؛ إنما هو ليدل على أن
الإعادة ليست حتماً؛ وإنما هي على الاختيار أو الاستحباب، كما قال البيهقي
رحمه الله (2/303) .
هذا؛ وفي رواية مالك: أن ابن عمر توقف في تعيين الفريضة من الصلاتين؛
بينما جزم في رواية الطحاوي بأنها الأولى.
وهذا هو الحق؛ لموافقته للحديث المتقدم؛ والظاهر أنه كان لم يبلغه عن النبي
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلما بلغه جزم به. والله أعلم.
حضرت میمونہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سلیمان نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو فرش پر بیٹھے دیکھا جب کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن! کیا وجہ ہے کہ آپ نماز نہیں پڑھ رہے؟ انھوں نے کہا: میں نماز پڑھ چکا ہوں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ایک نماز دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جاسکتی۔“
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت سے یہ سمجھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے باجماعت نماز پڑھ چکے تھے۔ لوگ اکیلے اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، یا ممکن ہے کہ دوسری جماعت ہو، تب یہ مکالمہ ہوا ہو۔ اگر صورت حال یہی تھی تو پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جواب اور استنباط صحیح ہے۔ لیکن ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ہو رہی تھی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے اکیلے پڑھ کر بیٹھے تھے۔ اس صورت میں ان کا استنباط محل نظر ہے کیونکہ صریح حدیث کے خلاف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیثیں ان کے علم میں نہیں تھیں ورنہ دوسری مرتبہ نماز پڑھنا اسی وقت منع ہے جب پہلے نماز باجماعت کامل طریقے سے پڑھی گئی ہو، لوٹانے کی کوئی وجہ نہ ہو، یا دونوں دفعہ فرض کی نیت کی گئی ہو۔ یہ آخری توجیہ و تطبیق امام احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کی ہے اور حدیث سے یہی مراد ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي:۱۰؍۳۴۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین میمونہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر ؓ کو بلاط ( ایک جگہ کا نام ) پر بیٹھے ہوئے دیکھا، اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے آپ کیوں نہیں نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: دراصل میں نماز پڑھ چکا ہوں، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دن میں دو بار نماز نہ لوٹائی جائے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ترجمۃ الباب سے مصنف نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ بات اس صورت پر محمول ہو گی جب اس نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: "The Messenger of (ﷺ) said: 'When you come to pray, do not come rushing; come walking in a dignified manner, and whatever you catch up with, pray, and whatever you miss, make it up"'.