Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Bowing outside the row)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
871.
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دفعہ) مسجد میں داخل ہوئے تو نبی ﷺ رکوع کی حالت میں تھے، چنانچہ انھوں نے صف سے پیچھے ہی رکوع کرلیا۔ (اور رکوع ہی کی حالت میں چل کر صف میں پہنچے۔) نبی ﷺ نے (نماز کے بعد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمھاری (نیکی کی) حرص میں اضافہ فرمائے لیکن دوبارہ ایسے نہ کرنا۔“
تشریح:
(1) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس طرح کرنے میں نماز کے اندر چلنا پڑتا ہے جو نماز کے منافی ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔ (2) اس روایت سے رکوع کی رکعت پر استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا کہ اگر رکوع ختم ہوگیا تو میں رکعت نہ پاسکوں گا، تبھی انھوں نے یہ انداز اختیارکیا۔ مگر یہ استدلال اتنا قوی نہیں ہے، نیز کوئی صراحت نہیں کہ انھوں نے اٹھ کر وہ رکعت پڑھی تھی یا نہیں۔ اس مسئلے میں یہ روایت مبہم ہے۔ استدلال واضح ہونا چاہیے۔ فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ [صلِّما أدركتَ واقضِ ما سبَقَك] ”جو مل جائے پڑھو اور جو نکل جائے اسے پورا کرو۔“ (فتح الباري:۲؍۳۴۸، شرح حدیث: ۷۸۳) حدیث کا مذکورہ قطعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی آتا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۲) اور ظاہر ہے کہ انھیں صرف رکوع ہی ملا تھا، قیام تو ان سے رہ گیا تھا۔ اس پس منظر میں اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ صرف رکوع ملے تو وہ رکعت شمار نہ ہوگی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري) .
إسناده: حدثنا حميد بن مَسعَدة أن يزيد بن زريع حدثهم: ثنا سعيد بن أبي
عروبة عن رْياد الآعلم: ثنا الحسن.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، رجاله كلهم ثقات رجال
الشيخين، غيرحميد بن مسعدة ، فهو من رجال مسلم.
والحسن: هو البصري، وقد صرح بسماعه من أبي بكرة؛ فإن قوله:
حَدَّث... المراد به: حدث أبو بكرة الحسن.
وقد جاء في بعض الروايات عن المصنف- كما يأتي-: حدثه؛ وكذا عند
غيره ، فزالت شبهة تدليسه.
والحديث أخرجه البجهقي (6/153) ، وابن حزم (4/57) من طريق المصنف؛
وقع عندهما: حدثه. غير أن مصجح "المحلى" أفسد الأصل؛ فجعله: حدث! وعلق
عليه بقوله:
" في الأصل: (حدثه) ، وصححاه من "أبي داود" (1 ص 254) "!
وهذا تسرع منه؛ فإنه جائز أن يكون في بعض أصول "السنن "، كما وقع في
أصل "المحلى"! ويؤيد ذلك رواية البيهقي هذه. ويزيده تأييداً: أن الحافظ قال في
"الفتح ":
" وقد أعله بعضهم بأن الحسن عنعنه. وقيل: إنه لم يسمع من أبي بكرة، وإنما
يروي عن الأحنف عنه. ورُدَ هذا الإعلال برواية سعيد بن أبي عروبة عن الأعلم
قال: حدثني الحسن أن أبا بكرة حدثه: أخرجه أبو داود والنسائي ".
فهذا يدل على أنه قد وقع في بعض الأصول المعتمدة من "السنن ": حدثه؛
كما في رواية البيهقي وابن حزم عن المصنف؛ فإن الحافظ ما كان لينقل عن نسخة
غير صحيحة ومعتمدة.
ويؤيد صحة ذلك: أن النسائي قد أخرج الحديث في " سننه " (1/139) ...
بإسناد المصنف هذا، مصرحاً بالتحديث، كما نقله الحافظ عنه؛ فإذا ثبت ذلك؛
فهي زيادة معتبرة، يجب قبولها؛ وبها يندفع الإعلال السابق.
وأما دعوى أن الحسن لم يسمع من أبي بكرة شيئاً؛ فهي باطلة؛ فقد سمع منه
غيرما حديث، كما أثبتنا ذلك في حديث آخر للحسن عن أبي بكرة، تقدم (رقم
227) .
ثم إن الحديث أخرجه الطحاوي (1/230) من طريق الحِماني قال: ثنا يزيد
ابن زربع... به.
وأخرجه البخاري (2/213) ، والبيهقي (2/90 و 3/106) ، وأحمد (5/45)
من طريق هَمّام عن الأعلم... به.
وأخرجه أحمد (5/39) من طريق أشعث عن زياد... به.
ثم أخرجه هو (5/46) ، والطيالسي (رقم 876) ، والبخاري في "جزء القراءة"
(ص 17) ، والطبراني في "الصغير" (ص 214) من طرق أخرى عن الحسن...
به نحوه.
وله في "المسند" (5/42 و 50) طريقان آخران عن أبي بكرة؛ بسندين
حسنين.
وقد ورد الحديث عن الأعلم من طريق آخر بزيادة فيه؛ وهو:
صحيح أبي داود (685)
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دفعہ) مسجد میں داخل ہوئے تو نبی ﷺ رکوع کی حالت میں تھے، چنانچہ انھوں نے صف سے پیچھے ہی رکوع کرلیا۔ (اور رکوع ہی کی حالت میں چل کر صف میں پہنچے۔) نبی ﷺ نے (نماز کے بعد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمھاری (نیکی کی) حرص میں اضافہ فرمائے لیکن دوبارہ ایسے نہ کرنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس طرح کرنے میں نماز کے اندر چلنا پڑتا ہے جو نماز کے منافی ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔ (2) اس روایت سے رکوع کی رکعت پر استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا کہ اگر رکوع ختم ہوگیا تو میں رکعت نہ پاسکوں گا، تبھی انھوں نے یہ انداز اختیارکیا۔ مگر یہ استدلال اتنا قوی نہیں ہے، نیز کوئی صراحت نہیں کہ انھوں نے اٹھ کر وہ رکعت پڑھی تھی یا نہیں۔ اس مسئلے میں یہ روایت مبہم ہے۔ استدلال واضح ہونا چاہیے۔ فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ [صلِّما أدركتَ واقضِ ما سبَقَك] ”جو مل جائے پڑھو اور جو نکل جائے اسے پورا کرو۔“ (فتح الباري:۲؍۳۴۸، شرح حدیث: ۷۸۳) حدیث کا مذکورہ قطعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی آتا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۲) اور ظاہر ہے کہ انھیں صرف رکوع ہی ملا تھا، قیام تو ان سے رہ گیا تھا۔ اس پس منظر میں اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ صرف رکوع ملے تو وہ رکعت شمار نہ ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے، نبی اکرم ﷺ رکوع میں تھے، تو انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ آپ کی حرص میں اضافہ فرمائے، پھر ایسا نہ کرنا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ خیر کی حرص گو محبوب و مطلوب ہے لیکن اسی صورت میں جب یہ شریعت کے مخالف نہ ہو، اور اس طرح صف میں شامل ہونا شرعی طریقے کے خلاف ہے، اس لیے اس سے بچنا اولیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakrah narrated that he entered the Masjid when the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)was bowing, so he bowed outside the row. The Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "May Allah increase you in keenness, but do not do this again".