Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: What is done at the beginning of the prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
876.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھاجب آپ تکبیر تحریمہ کہتے تو [اللہ اکبر] کہتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ انھیں اپنے کندھوں کے برابر کرتے۔پھر جب رکوع کی تکبیر کہتے تو اسی طرح کرتے۔ پھر جب [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہتے تو پھربھی ایسے ہی کرتے اور [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہتے۔ اور جب سجدے کو جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو ایسے نہیں کرتے تھے۔
تشریح:
(1) نماز کا افتتاح اللہ اکبر سے ہوگا۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں کیونکہ اس تکبیر سے نماز میں بہت سی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں، مثلاً: کھانا پینا، چلنا پھرنا اوربات چیت کرنا وغیرہ۔ اللہ اکبر کے سوا کسی اور لفظ سے، خواہ وہ اس سے ملتا جلتا ہی ہو، نماز کا افتتاح درست نہیں۔ (2) کندھوں یا کانوں تک دونوں ہاتھ اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ اور یہ نماز میں چار جگہ ثابت ہے: ٭تکبیرتحریمہ کے وقت۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جو اس رفع الیدین کو چھوڑتا ہے، وہ گناہ گار ہوگا۔ ٭رکوع سے پہلے۔ ٭رکوع کے بعد۔ ٭اور تیسری رکعت سے پہلے۔ مذکورہ صورتوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور یہ ایسی سنت ہے جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے کہ کوئی اور عمل صحابہ کی اتنی کثیر تعداد نے بیان نہیں کیا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہ کرتا ہو۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے نماز شروع کی تو اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر چادر اوڑھ لی، پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع سے اٹھے تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا اور رفع الیدین کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۴۰۱) حضرت وائل بن حجر ۹ اور۱۰ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتدا میں رفع الیدین کرنا سنت ہے مگر احناف اسے منسوخ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے پاس نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو کہ ضعیف ہے۔ اور پھر اس کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے والی روایات بہت زیادہ اور بہت قوی ہیں جیسا کہ بعض انصاف پسند حنفی علماء نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، اس لیے عمل ان روایات پر ہوگا جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور سنداً قوی بھی، نہ کہ ایک آدھ روایت پر جو صحت و سند کے اعتبار سے قوی بھی نہیں ہے، لہٰذا ایک آدھ ضعیف روایت کو لے کر کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس سنتی صحیحہ کو منسوخ کہنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ آخر میں اسلام لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس رفع الیدین کوبیان کیا ہے، یعنی یہ سنت صحیحہ، متواترہ، غیرمنسوخہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (نیل الأوطار:۲؍۱۹۸۔۲۰۹) (3) سجدے کو جاتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین قطعاً ثابت نہیں بلکہ اس کی صریح نفی آئی ہے، لہٰذا اس پر عمل درست نہیں۔ اگر کہیں ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے یا اس سے مراد رکوع کے بعد رفع الیدین ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان ہوتا ہے۔ (4) امام تسمیع و تحمید [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] دونوں کہے گا۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھاجب آپ تکبیر تحریمہ کہتے تو [اللہ اکبر] کہتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ انھیں اپنے کندھوں کے برابر کرتے۔پھر جب رکوع کی تکبیر کہتے تو اسی طرح کرتے۔ پھر جب [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ] کہتے تو پھربھی ایسے ہی کرتے اور [رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] کہتے۔ اور جب سجدے کو جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو ایسے نہیں کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز کا افتتاح اللہ اکبر سے ہوگا۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں کیونکہ اس تکبیر سے نماز میں بہت سی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں، مثلاً: کھانا پینا، چلنا پھرنا اوربات چیت کرنا وغیرہ۔ اللہ اکبر کے سوا کسی اور لفظ سے، خواہ وہ اس سے ملتا جلتا ہی ہو، نماز کا افتتاح درست نہیں۔ (2) کندھوں یا کانوں تک دونوں ہاتھ اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ اور یہ نماز میں چار جگہ ثابت ہے: ٭تکبیرتحریمہ کے وقت۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جو اس رفع الیدین کو چھوڑتا ہے، وہ گناہ گار ہوگا۔ ٭رکوع سے پہلے۔ ٭رکوع کے بعد۔ ٭اور تیسری رکعت سے پہلے۔ مذکورہ صورتوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور یہ ایسی سنت ہے جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے کہ کوئی اور عمل صحابہ کی اتنی کثیر تعداد نے بیان نہیں کیا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہ کرتا ہو۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے نماز شروع کی تو اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر چادر اوڑھ لی، پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع سے اٹھے تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا اور رفع الیدین کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۴۰۱) حضرت وائل بن حجر ۹ اور۱۰ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتدا میں رفع الیدین کرنا سنت ہے مگر احناف اسے منسوخ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے پاس نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو کہ ضعیف ہے۔ اور پھر اس کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے والی روایات بہت زیادہ اور بہت قوی ہیں جیسا کہ بعض انصاف پسند حنفی علماء نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، اس لیے عمل ان روایات پر ہوگا جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور سنداً قوی بھی، نہ کہ ایک آدھ روایت پر جو صحت و سند کے اعتبار سے قوی بھی نہیں ہے، لہٰذا ایک آدھ ضعیف روایت کو لے کر کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس سنتی صحیحہ کو منسوخ کہنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ آخر میں اسلام لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس رفع الیدین کوبیان کیا ہے، یعنی یہ سنت صحیحہ، متواترہ، غیرمنسوخہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (نیل الأوطار:۲؍۱۹۸۔۲۰۹) (3) سجدے کو جاتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین قطعاً ثابت نہیں بلکہ اس کی صریح نفی آئی ہے، لہٰذا اس پر عمل درست نہیں۔ اگر کہیں ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے یا اس سے مراد رکوع کے بعد رفع الیدین ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان ہوتا ہے۔ (4) امام تسمیع و تحمید [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ] دونوں کہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں تکبیر تحریمہ شروع کرتے تو جس وقت اللہ اکبر کہتے اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل کر لیتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی اسی طرح کرتے، پھر جب «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے تو بھی اسی طرح کرتے ۱؎ ، اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے اور سجدہ میں جاتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ایسا نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے، جو لوگ اسے منسوخ یا مکروہ کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں کیونکہ اگر رفع یدین کا نہ کرنا کبھی کبھی ثابت بھی ہو جائے تو یہ رفع یدین کے سنت نہ ہونے پر دلیل نہیں، کیونکہ سنت کی شان ہی یہ ہے کہ اسے کبھی کبھی ترک کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar (RA) said: I saw the Messenger of Allah (ﷺ) when he said the opening Takbir of the prayer, raise his hands until they were level with his shoulders. When he said the Takbir before bowing he did likewise, and when he said: 'Sami Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him)', he did likewise, then he said: 'Rabbana wa lakal-hamd (Our Lord, to You be praise)'. But he did not do that when he prostrated or when he raised his head from prostration.